بدھ، 25 جنوری، 2023

شیرین فرہاد

شیرین



فرہاد 

ایک حقیقت یا فسانہ۔؟

ضلع آواران اور بیلہ سے 3 سے 4 کلو میٹر جھاٶ کراس ایک FC چوکی آتی ہے یہاں سے آدھے گھنٹے سفر کے بعد کی سرحد اور پہاڑی لک پاس کے مقام پر واقع سڑک کے کنارے شیریں فراد مقبرہ موجود آواران اور لسبیلہ کی سرحدوں کو ملانے والی لک پاس کے قریب واقع ہے شیرین فرہاد کے داستان کے حوالے سے علاقے کے داستان گو قصہ بیان کرتے ہیں کہ شیرین لسبیلہ ریاست کے والی کی بیٹی تھی اور فرہاد ایک سنگ تراش تھا۔فرہاد شیریں کے عشق میں اتنا گرفتار تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر شیریں کو حاصل کرنے کی اپنی اناء پر قائم تھا۔ تو والی ریاست نے اسکے زمے ایک ناممکن زمہ داری سونپی کہ اگر فرحاد پہاڑی لک سے راستہ بنائے گا تو شیرین کی شادی اس کے ساتھ کرائی جائے گی۔ جس پر فرہاد نے اسی لک پاس کو توڑنے کی حامی بھر لی اور دن رات اس پر کام کرتا رہا جب کام اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا۔تو ریاست بیلہ کے والی کو پریشانی لاحق ہو گئی کہ ایک بت تراش کو اپنی بیٹی کا رشتہ کیسے دے وزراء اور امراء سے صلاح و مشورے کے بعد ایک بوڑھی عورت کو نہایت ہی اہم مشن کے لئے فرہاد کے پاس روانہ کردیا۔ بڑھیا نے وہاں پہنچ کر روتے ہوئے فرحاد کو یہ بری خبر سنا دی ۔ کہ شیرین اب اس دنیا میں نہیں رہے جس پر فرحاد نے اپنے بیلچے سے اپنا کام تمام کیا جبکہ شیرین نے وفاء کا ثبوت دیتے ہوئے اسی مقام پر اپنی جان دے دی جنکی جسدین ابدی مقام پر اکھٹے ہی دفنا دیئے گئے جو آج بھی ایک ہی قبر کی شکل میں موجود ہیں۔ مقامی داستان گوؤں کی زبانی اس داستان کو سنیں تو اس میں حقیقت کے آثار بہت کم دکھائی دیتے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ کہانی کچھ اور ہے جسے شیریں فرحاد کی شکل دے دی گئی ہے۔ دوسری جانب ایران ایک شاعر الیاس اور قلمی نام نظامی گنجوی ،آزربائیجان کے شہر گنجا سے تعلق رکھنے والے اس شاعر نے 1141ء کو جنم لیا اور 1209ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ لیلیٰ اور مجنون کی کہانی شاعرانہ انداز میں بیان کرنے والے اس شاعر نے رومانوی داستان’’ خسرو اور شیرین‘‘ کے نام سے ایک شعر لکھا جو بعد میں بہت مشہور ہو گیا اور لوگوں نے بعد میں اس افسانوی شاعری کو حقیقت کا روپ دے دیا۔جو بعد میں مختلف ناموں سے ہوتا ہوا ’’ شیریں فرحاد ہو گیا۔ آج بھی آواران سے کراچی جانے والے مسافر جب اس مقام پر آتے ہیں تو کچھ کے زبان سے اسے شیراز فرحاز تو کچھ اسے شیریں فرحان کہا جاتا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ سے وابسطہ لیکچرر اے آر داد بلوچ کہتے ہیں کہ روایت میں تو یہی آتا ہے کہ لک پاس کے قریب انکی قبریں موجود ہیں لیکن اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں جس سے یہ اخذ کیا جا سکے اس میں حقیقت ہے۔ اس قسم کی رومانوی داستانیں ہر قوموں میں موجود ہیں ان رومانوی داستانوں کو مختلف قوموں نے اپنے شاعری میں انکا ذکر کیا ہے۔ ہر جگہ کہانی ایک جیسی ہے فرق صرف جگہوں کا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ داستانیں خیالی ہیں۔ لیکن انکی تخلیق یونیورسل تھے۔ جنکو بنیاد بنا کر ہر قوم نے اسے اپنے لئے تشبیہ دی ہے۔ اسی طرح کی دو قبریں چکوال کے گاٶں نیلہ میں موجود ہیں ان کو بھی شیریں فرہاد کی قبریں بیان کیا جاتا ہے اور سالٹ رینج کو وہ مقام قرار دیا جاتا ہے جس جگہ فرحاد نے پہاڑ کھود کے رستہ نکالا اور یہاں تک کہا جاتا ہے کے اس نہر میں دودھ جاری ہو گیا۔ایک یہ داستان یا دیگر داستانیں حقیقت سے زیادہ فسانہ لگتی ہیں۔ جسکی تاریخ دان اپنی تاریخ میں ذکر نہیں کرتے کہ سسی پنوں، لیلیٰ مجنون اور شیریں فرہاد کچھ ایسی داستانیں ہیں جن میں حقیقت بہت کم جھلکتی ہے اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کے علاقے کردستان میں شیریں فرہاد کے نام سے ایک قبر واقع ہے جسے دیکھنے لوگ جاتے ہیں ۔ اگر یہ واقعی ایک حقیقت ہوتی تو تین جگہوں کے بجائے ایک ہی جگہ انکی قبریں ہوتیں۔ یا یہ ہو سکتا ہے یہ داستان حقیقت ہو۔ کیونکہ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ زمانے میں بلوچوں کے پاس وسائل نہ تھے اور نہ ہی انکے پاس ایسے واقعات کو لکھ کر محفوظ کرنے اور انہیں آنے والی نسلوں تک پہنچانے ذرائع موجود تھے۔ اب جبکہ مختلف ادارے اس ملک میں موجود ہیں ان پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔ نظامی گنجوی جس کی تاریخ پیدائش کو دیکھ لیں جنہوں نے اس پر شاعری لکھی تھی 1141ء کو پیدا ہوئے تھے۔ تو اگر یہ داستان واقعی حقیقت ہے تو یہ کافی پرانا واقعہ ہوگا۔ تو اتنا عرصہ گزرنے کے بعد یہ قبر اپنے وجود کو کیسے برقرار رکھ سکتی ہے کیونکہ اس قبر کی تزین و آرائش 8سال قبل کی گئی تھی اس سے پہلے یہ قبر کھلے آسمان تلے موجود تھا۔ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کے یہ پہلے دو قبریں تھیں یعنی فرہاد الگ شیریں کو الگ دفن کیا گیا لیکن یہ قبریں آپس میں مل گٸیں اور اب ایک قبر ہے

اب یہ داستانیں حقیقت ہیں یا افسانہ یہ معلوم نہیں لیکن یہ معلوم ہے یہ داستانیں نسل در نسل چلی آرہی ہیں قصے کہانیوں میں گیتوں میں انکا زکر رہتا ہے اور ہم اسے مانتے اور سراہتے آۓ ہیں کیونکہ ماٸتھالوجی میں عقل اور دلیل نہیں ڈھونڈی جاتی بسل مانا جاتا ہے لطف لیا جاتا ہے ماٸتھالوجی میں جو بھی اچھا ہے اسے اپنا مانا جاتا ہے حقیقت ڈھونڈنے میں وقت نہیں گنوایا جاتا ماٸتھالوجی میں وفا اہم ہے عہد وفا دیکھا جاتا ہے جنون دیکھا جاتا ہے بس ۔ اس لیے یہ داستانیں لوک داستانوں میں اپنی پختہ حقیقت رکھتی ہیں اپنے وجود کے ساتھ سامنے کھڑی ہوتی ہیں 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ضلع سدھنوتی کی مختصر تاریخ

آزاد کشمیر کا ضلعی سدھنوتی 1996ء میں قائم ہوا۔ اس کا رقبہ 569 مربع کلو میٹر ہے۔ جو آزاد کشمیر کے کل رقبے کا %4 ہے۔ اس ضلع کی آبادی 340,000 ن...