بدھ، 18 جنوری، 2023

سندھ بلدیاتی الیکشن۔

 سندھ بلدیاتی انتخابات، دیر آید درست آید

 کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔بلدیاتی انتخابات کا یہ مرحلہ بے پناہ پس و پیش ‘ شش و پنج اور اونچ نیچ سے گزر کر آیا۔ متعدد بار انتخابات ملتوی ہوئے ‘ کبھی بارش اور سیلاب کی وجہ سے ‘ کبھی سکیورٹی کے بہانے اور کبھی حلقہ بندیوں کے اِشکال کی بنا پر‘ یہاں تک کہ ایم کیو ایم نے انتخابات کی رات بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور لوگوں کو ووٹ نہ ڈالنے کی ترغیب دی۔ قابلِ غور امر ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی مگر بلدیاتی جمہوری اداروں کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ قومی سطح کی سبھی سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کی شراکت دار ہیں مگر جمہوریت کی بنیاد کہلانے والے نظام کیلئے ان جماعتوں کی بے دلی باعثِ حیرت ہے۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات سے قومی سیاسی جماعتوں کی بیزاری کی وجہ سوائے اس کے کیا ہو سکتی ہے کہ سیاسی مائنڈ سیٹ صوبائی اور قومی سیاست کے ڈھانچے میں بلدیاتی اداروں کو ناپسندیدہ شریک سمجھتا ہے اور اس کیلئے تقسیمِ اختیارات سے گھبراتا ہے۔ اس غیر حقیقت پسندانہ سیاسی رویے نے ملک میں جمہوری نظام ‘ سیاسی قیادت‘ عوامی حقوق اور شہری آبادی کی ترقی اور اصلاح کے معاملات کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔بلدیاتی نمائندے کسی قوم کیلئے سیاسی قیادت کی نرسری قرار دیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں اس نظام کی جڑیں مضبوطی سے لگنے نہیں دی گئیں ؛چنانچہ ہم حقیقی سیاسی قیادت پروان چڑھانے کے اس متبادل نظام سے محروم ہیں اور اس کا نقصان عام شہری سے لیکر سیاسی جماعتوں تک محسوس کیا جارہا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کو حقیقی لیڈر شپ کے جس بحران کا سامنا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ملکی آبادی میں قریب 70 فیصد نوجوانوںہیں مگر سیاسی قیادت میں نوجوانوںکا حصہ خاصا کم ہے‘ اور جو نوجوان سیاست میں ہیں وہ بھی سیاسی تربیت کے مراحل سے کم ہی گزر کر آئے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں قیادت کے خلا کو جس انداز سے پُر کرنے کی روایت ہے وہ اپنے آپ میں غیر جمہوری طرزِ عمل ہے اور اس سے جمہوری روایت کی پاسداری کی توقع نہیںکی جاسکتی۔ ملک میں جمہوری ثقافت کو فروغ دینے کیلئے اس رویے کو تبدیل کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلی ہماری قومی ترقی اور شہری حقوق کی رسانی کیلئے بھی ضروری ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا باقاعدہ انعقاد اور جمہوریت کی نرسری کی نگہداشت ہمارے سیاسی ماحول کو اس تبدیلی سے ہم کنار کر سکتی ہے جو معیاری جمہوریت یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے۔اس کیلئے بلدیاتی انتخابات کو التوا میں ڈالنے کا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ جس طرح اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے یونین کونسلوں کی تعداد بڑھانے کو جواز بنا کر بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی انتخابات نہیں ہونے دیے یا کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات کو مزیدالتوا میں ڈالنے کے جو حیلے کیے گئے ‘ یہ رویہ جمہوری سوچ کا آئینہ دار نہیں۔ اگر اسلام آباد میں آبادی میں اضافہ ہوا تو حکومت نے یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کا عمل بروقت کیوں مکمل نہیں کر لیا یا کراچی میں حلقہ بندی پر جو اعتراض جڑے گئے‘ اس معاملے میں کو کیوں بروقت سلجھایا نہیں جا سکا؟ سیاسی جماعتوں کو یہ سارے کام بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد ہی کیوں یاد آتے ہیں؟ بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں سیاسی جماعتوں کو ذمہ دار رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات آئین پاکستان کا تقاضا ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 140 اے قرار دیتا ہے کہ ہر ایک صوبہ مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی ‘ انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کریگا۔ آئین کی اس شق پر خوش دلی سے عملدرآمد یقینی بنا کر ملک عزیز میں سیاسی‘ جمہوری بہتری لائی جا سکتی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ضلع سدھنوتی کی مختصر تاریخ

آزاد کشمیر کا ضلعی سدھنوتی 1996ء میں قائم ہوا۔ اس کا رقبہ 569 مربع کلو میٹر ہے۔ جو آزاد کشمیر کے کل رقبے کا %4 ہے۔ اس ضلع کی آبادی 340,000 ن...