منگل، 11 اپریل، 2023

ضلع سدھنوتی کی مختصر تاریخ



آزاد کشمیر کا ضلعی سدھنوتی 1996ء میں قائم ہوا۔ اس کا رقبہ 569 مربع کلو میٹر ہے۔ جو آزاد کشمیر کے کل رقبے کا %4 ہے۔ اس ضلع کی آبادی 340,000 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس ضلع کے تاریخی مقامات میں بارل اور منگ تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ قلعہ بارل پلندری شہر سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ضلع کے سیاحتی مقامات میں بارل، بلوچ، بیٹھک گجن، ٹھنڈی کسی قلعاں، بساڑی، تراڑکھل اور آزاد پین مشہور ہیں۔ تراڑکھل کے گاؤں نیریاں شریف میں ایک مذہبی و روحانی پیشوا پیر علاؤ الدین صدیقی کی کاوشوں سے ایک اسلامک یو نیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ نیریاں شریف میں پیر محی الدین غزنوی اور ان کے صاحبزادے پیر علاؤ الد ین صدیقی کا مزار مرجع خلائق ہے۔ پلندری شہر پلندری آزاد کشمیر کا ایک چھوٹا قصبہ نما شہر ہے۔ یہ ضلع سدھنوتی کا ضلعی ہیڈ کوارٹر بھی ہے ۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 4500 فٹ ہے۔ 1996 میں سدھنوتی کو ضلعی درجہ ملنے کے بعد پلندری شہر کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ قبل ازیں پلندری ضلع پونچھ کی ایک تحصیل تھی۔ پلندری میں کیڈٹ کالج ایک مثالی تعلیمی ادارہ ہے جبکہ مولانا محمد یوسف کا قائم کردہ دینی دار العلوم بھی ایک اہم درس گاہ ہے۔ شہر میں ادارے ، ہوٹل، ریسٹ ہاؤس اور حکومتی دفاتر قائم ہیں۔ شہر میں ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء دستیاب ہیں۔ پلندری شہر پہاڑوں کی چوٹی پر واقع ہے۔ اس کے آس پاس خوبصورت جنگلات ہیں ۔ یہاں سے پاکستان کا شہر راولپنڈی 97 کلومیٹر اور راولاکوٹ 54 کلو میٹر ہے ۔ جبکہ دارالحکومت مظفر آباد 100 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیاحتی اعتبار سے پلندری پر کشش مقام ہے۔ پلندری شہر سے مشرق کی سمت ایک کلومیٹر کے فاصلے پر مہاراجہ پونچھ کا تاریخی محل واقع ہے جسے مقامی لوگ باولی کہتے ہیں۔ یہ فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے لیکن حکومتی بے حسی کے سبب یہ تاریخی عمارت خستہ حال ہو رہی ہے ۔ اس تاریخی ورثے کو بچانا اہلیان علاقہ کی قومی ذمہ داری ہے۔ 






پیر، 10 اپریل، 2023

کشمیر اور اردو صحافت





مہاراجہ پرتاب سنگھ کے عہد حکومت میں ایک ہند و صحافی لالہ ملک راج صراف کی مسلسل کوشش سے 20 مئی 1924ء کو جموں سے پہلا اردو اخبار رنبیر جاری ہوا۔ یہ اخبار 26 سال تک (1950 تک) شائع ہوتا رہا۔ رنبیر شائع ہونے کے بعد 1932 ء تک کوئی دوسرا اخبار شائع نہ ہوا ۔ البتہ 1932ء کے بعد حسب ذیل اخبارات شائع ہوئے۔ امر سویرا، بیچ کشمیر میں ، ولن، پاسبان حقیقت، لارشن، انڈسٹریل ، زندگی، چاند، فردوس، چناب، خورشید، جمہور اور جاوید فیرو مہاراجہ ہری سنگھ کے عہد حکومت میں وادی کشمیر سے پہلا اردو اخبار وتستا جاری ہوا جسے پنڈت پریم ناتھ بزاز نے جاری کیا۔ اس کے بعد وادی کشمیر سے جو اخبارات شائع ہوئے ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ ہمدردہ کیسری ، دیش ، خالد ، خدمت، حقیقت، صداقت، نور، جہانگیر اسلام، راہنما، قومی درد، بے کار، حریت، دہقان، توحید، بدایت، سدھار، اصلاح، وکیل، روشنی ، ذوالفقار ، خالصه گزت، امرت ، منطور، شمشیر، دچار ، طبیب ، مسیحا، نشاط ، کونگ پوش پیغام، پنوار گزٹ ، سدھارک، زعفران، کشمیر، ابرق، کشمیر کرانیکل، جو ہر وغیرہ۔ ریاست جموں کشمیر میں پریس ایکٹ مہاراجہ پرتاب سنگھ کے عہد میں بنا۔ اس ایکٹ کے تحت کوئی اخبار جاری کرنے کی درخواست پر صرف مہاراجہ بہادر ہی غور کر سکتا تھا۔ جموں کشمیر کی صحافتی تاریخ میں 13 فروری 1944 ء کو وزیر اعظم سربی این راؤ نے اپنے دفتر میں پہلی پریس کانفرنس طلب کی جس میں 20 کے قریب ایڈیٹروں اور اخباری نمائندوں نے شرکت کی۔ ریاست جموں کشمیر کے نامور صحافی و دانشور دید حسین 5 نومبر 2015 ء کو جموں میں انتقال کر گئے۔ 

جمعہ، 7 اپریل، 2023

ریاست جموں کشمیر کا کل رقبہ



ریاست جموں کشمیر کا کل رقبہ 84,471 مربع میل (218779 مربع کلومیٹر) ہے ۔ بلحاظ رقبہ ریاست جموں کشمیر دنیا کے 111 آزاد خود مختار ممالک سے بڑی ہے۔ تقسیم کشمیر سے پہلے ریاست کاصوبائی رقبہ حسب ذیل تھا۔


صوبہ جموں.12.378 مربع میل

صوبہ کشمیر.8.539 مربع میل

صوبه لداخ و گلگت.63.554 مربع میل

 1947ء کے بعد ریاست جموں کشمیر پر پاکستان ، ہندوستان اور چین کے قبضے کے سبب

ریاست کے مقبوضہ علاقوں کا رقبہ حسب ذیل ہے۔بھارت کے زیر قبضہ صوبه لداخ.24.569 مربع میل

صوبہ کشمیر.6.839 مربع میل

صوبہ جموں.9,880 مربع میل کل بھارتی مقبوضہ علاقہ 41,342 مربع میل ہے (1.07.075 مربع کلو میٹر ) ۔

پاکستان کے زیر قبضہ


آزاد کشمیر

27946 مربع میل (72,379.8 مربع کلومیٹر) 4,144 مربع میل (10.7329 مربع کلومیٹر )

کل پاکستانی علاقہ 32,090 مربع میل (83,112.7 مربع کلومیٹر) ہے۔

چین کے زیر قبضہ

1962 ء کی بھارت چین جنگ کے نتیجے میں چین نے بھارت کے زیر قبضہ صوبہ لداخ کا 9.171 مربع میل (23752.7 مربع کلو میٹر ) اپنے قبضے میں لے لیا جسے اقصائی چن کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے صدر ایوب خان نے گلگت بلتستان کی شمال سرحد پر 1,868 مربع میل (4,838 مربع کلو میٹر) کا علاقہ پاک چین سرحدی معائدہ کرتے وقت (1963) چین کو تحفتا دے دیا۔ یہ دونوں خطے ملا کر چین کے زیر قبضہ ریاست جموں کشمیر کا کل 11039 مربع میل (28,590.8 مربع کلومیٹر ) علاقہ ہے۔ 

جمعہ، 31 مارچ، 2023

دنیا میں کشمیر کی سیاسی حثیت اور یاسر عرفات کا موقف۔

دنیا میں کشمیر کی سیاسی حثیت کیا ہے ؟

دنیا میں کشمیر کی سیاسی حیثیت بہت متغیر ہے اور اس پر مختلف ملکوں کی نظریں مختلف ہیں۔

بعض ممالک کشمیر کو پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں جبکہ دوسرے ممالک اسے بھارت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ بیشتر بین الاقوامی مجامع کشمیر کو غیر خود مختار ریاست تصور کرتے ہیں اور ان کیلئے مستقبل کی حیثیت قائم رکھی جاتی ہے۔

کشمیر مسئلہ دو ملکوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد پر ہے اور یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بھی ہے۔ ملکوں کے درمیان تنازع کشمیر مسئلہ کے بارے میں بین الاقوامی اداروں میں بحث جاری ہے، جس میں امم متحدہ، امریکہ، روس، چین اور دیگر ممالک شامل ہیں۔

کچھ لوگ کشمیریوں کے لیے خود مختار ریاست کی منظوری دیتے ہیں اور ان کو انتخابات کے ذریعے فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہتے ہیں۔ البتہ اس مسئلے کے حل کے لئے ایک دوسرے کے خلاف کڑی رائے رکھنے والے متعدد ریاستوں کے درمیان ایک مشترکہ حل تلاش کرنا ضروری ہے۔

کشمیر مسئلہ دنیا بھر میں سیاسی، استراتیجی، اقتصادی اور جغرافیائی وجوہات کی بنیاد پر مختلف ملکوں اور کشمیریوں کے درمیان بارہا رہا ہے۔

ایک طرف پاکستان کشمیر کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے، جبکہ بھارت کشمیر کو اپنا انتظامی ریاست تصور کرتا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان 1947ء کے تقسیمِ ہند کے بعد شروع ہونے والے کشمیر کے دوہرے پرزے کو لے کر تنازع ہے۔

ایک جانب کشمیر میں اغوا کی وجہ سے پاکستان بھارت سے لے کر جہادیوں کے اندر امن کی صورت میں تعاون کرتا ہے، دوسری جانب بھارت کشمیر میں ارضی نفوذ کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دنیا کے مختلف حصوں میں کشمیریوں کے حقوق کیلئے احتجاجات بھی ہوئے ہیں اور ان کے حقوق کو برقرار رکھنے کی خاطر بین الاقوامی دباؤ بھی دیا جاتا ہے۔

ایک مسئلہ جس کا اثر پوری دنیا میں محسوس ہو رہا ہے، کشمیر مسئلہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ جیو پولیٹکس کی دنیا میں سیاست، تاریخ اور جغرافیہ کیا ہوتے ہیں اور ان کے تعلقات کیا ہوتے ہیں۔

کشمیر مسئلہ کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہ دنیا بھر کے دیگر امتیازی مسائل کی طرح، اقلیتوں کے حقوق اور خود ارادیت کے تقاضوں کو بھی شامل کرتا ہے۔

کشمیریوں کے حقوق کیلئے دنیا بھر میں کئی احتجاجی تحریکیں ہوئی ہیں جن میں کشمیری جدوجہد کا مشہور نام یاسر عرفات بھی شامل ہے۔

انتہائی مشکل، ترسیلی، جغرافیائی اور تاریخی شرائط کی وجہ سے، کشمیر مسئلہ کا حل مشکل ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان توانائیاں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے حل کے لئے بین الاقوامی اقدامات کرنا اور تحریک کرنا مزید ضروری ہوتا جا رہا ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل دو ملکوں کے بیچ دونوں طرفوں کی رضاکاری سے ممکن ہے، جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کے خود ارادیت کا حق دینا چاہئے۔

کشمیر مسئلہ کا حل اس سے بھی بہت زیادہ اہم ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ کے لئے دنیا کو ایک بے چینی اور خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

یاسر عرفات، فلسطین کے تحریک کے مشہور رہنما تھے جنہوں نے دنیا بھر میں مظلوم امتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کیا۔ انہوں نے کشمیریوں کے مقدمے کو بھی حمایت کی تھی۔

یاسر عرفات نے کشمیریوں کے حقوق کیلئے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعے کو حل کرنے کیلئے اقدامات کیے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دوران کئی مرتبہ کشمیر جانے کی کوشش کی اور کشمیریوں سے ملاقاتیں کیں۔


یاسر عرفات نے 1991ء میں بھارتی کشمیر جانے کی کوشش کی تھی، لیکن اس کو بھارت کی حکومت نے روک دیا۔ انہوں نے اپنے خطابات اور بیانات میں کشمیریوں کے حقوق کے حصول کیلئے اقدامات کا ذکر کیا اور دنیا کو کشمیر کے مسئلے کی اہمیت پر غور کرنے کی ترغیب دی۔


یاسر عرفات نے کشمیریوں کے مقدمے کے لئے خصوصی شفقت رکھی تھی، اور وہ ان کے حقوق کے لئے دنیا بھر میں آواز بلند کرتے رہے۔ 


یاسر عرفات کا کشمیریوں کے مقدمے کے ساتھ انتہائی احساس تھا۔ انہوں نے کشمیریوں کے حقوق کی دفاع کیلئے دنیا بھر میں تحریکات کیں اور دنیا کے ممالک کو کشمیر کے مسئلے کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔


یاسر عرفات نے اپنے عربی خطابات میں کشمیر کی آزادی کیلئے دعا کی اور انہوں نے پاکستان اور بھارت کو اس مسئلے کے حل کیلئے مذاکرات کرنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے حصول کے لئے کئی بار پاکستان کی حمایت کی اور اس مسئلے کو دولت اسلامیہ کے حصے کے طور پر شمار کیا۔


یاسر عرفات نے بھارتی کشمیر پر حکومت کے تظاہرات کو بھی مذمت کیا۔ انہوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف شدید الفاظ کا استعمال کیا اور ان کے عمل کو انسانی حقوق کی توہین قرار دیا۔

کل یاسر عرفات کشمیر مسئلے کے حل کے لئے دنیا بھر میں تحریکات کی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دوران کئی بار کشمیر جانے کی کوشش کی اور کشمیریوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے اقدامات نے کشمیر مسئلے کو دنیا بھر میں عوامی توجہ کی مرکزیت میں رکھا اور اس مسئلے کی حل کیلئے تح


ریکات کی آگاہی کو بڑھایا۔


 

منگل، 28 مارچ، 2023

جمہوری اور اسلامی صدارتی نظام میں واضح فرق کیا ہوتا ہے ؟


جمہوری اور اسلامی صدارتی نظام دونوں مختلف نظام ہیں جو مختلف مقاصد کے لئے تشکیل دیے جاتے ہیں۔


جمہوری نظام میں، صدارتی نظام کی بنیاد جمہوریت ہوتی ہے۔ اس نظام میں، صدر جمہوریت کا حامی ہوتا ہے جو عوام کے انتخاب سے انتظامی عہدے پر آتا ہے۔ اس طرح کے نظام میں، صدر کا عہدہ عام طور پر غیر ملکی خدمات سے ہٹ کر بلحاظ ملکی عملیات محدود ہوتا ہے۔


دوسری طرف، اسلامی نظام میں، صدارتی نظام کی بنیاد دینیت ہوتی ہے۔ اس نظام میں، صدر ایک دینی رہنما ہوتا ہے جو مسلمانوں کی ترویج اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت، صدر کا عہدہ ملک کی دینی اور دنیوی امور کے حل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔


بشمول مذہبی حکومت میں، عموماً صدر کو ایک دینی رہنما ہونا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ دینی مجالس یا دینی رہنماؤں کی ایک شوروی رکن کی طرح کام کرتا ہے۔


اختیاری نظامات میں، جمہوری اور اسلامی صدارتی نظام میں فرق آتا ہے


جمہوری اور اسلامی صدارتی نظام کے فرق کے علاوہ، دونوں نظاموں میں بھی دیگر فرق موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ، یہاں کچھ اہم فرقات آپ کو بتاتے ہیں۔

نظام کے بنیادی اصول: جمہوری نظام بنیادی طور پر جمہوریت پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ اسلامی نظام اسلام کی بنیاد پر مشتمل ہوتا ہے۔


حکومت کی شکل: جمہوری نظام میں، عوام کے انتخابات کے ذریعے ممبران پارلیمان اور صدر کو منتخب کیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، حکومت عموماً ایک خاندان یا علیحدہ رہنما کی ایک اہلیت پر مشتمل ہوتی ہے۔


قانون: جمہوری نظام میں، قانون پارلیمان کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، قانون شریعت پر مبنی ہوتا ہے۔


حقوق اور آزادیاں: جمہوری نظام میں، افراد کے حقوق اور آزادیوں کی حفاظت پر زور دیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، انصاف اور انصاف کے حصول کے لئے شریعت کی پیروی کی جاتی ہے۔


تعلیم: اسلامی نظام میں، تعلیم عموماً دینی تعلیم پر مبنی ہوتی ہے، جبکہ جمہوری نظام میں، تعلیم عمومی، تجارتی، طبی، اور دینی تعلیم سب پر مشتمل ہو


اجتماعی اور اقتصادی نظام: اسلامی نظام میں، اجتماعی اور اقتصادی نظام عموماً اسلامی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ جمہوری نظام میں، اجتماعی اور اقتصادی نظام کے ترتیبات مختلف ہو سکتے ہیں۔


مذہب: جمہوری نظام میں، مذہب کی پیروی کی پوری آزادی موجود ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، عموماً صرف اسلام کی پیروی کی اجازت دی جاتی ہے۔


نظامی ادارے: اسلامی نظام میں، نظامی ادارے (مثلاً قضائی نظام) شریعت پر مبنی ہوتے ہیں، جبکہ جمہوری نظام میں، نظامی ادارے عموماً قانون پر مبنی ہوتے ہیں۔


خدمات عوام: جمہوری نظام میں، خدمات عوام کی پیشکش کے لئے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رقابت کرتی ہیں، جبکہ اسلامی نظام میں، حکومت کو افراد کی ضروریات کی تعلیم دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔


امن وامان: دونوں نظاموں میں امن و امان کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان کے حصول کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ جمہوری نظام میں، عوام کی رائے اور حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، شریعت کی پیروی کی جاتی ہے جو امن و امان کی حصول کے لئے ضروری ہے۔




ہفتہ، 25 مارچ، 2023

ملک میں آٹے کے بحران کی بڑی وجہ کیا ہے آئیے جانے کی کوشش کرتے ہیں


۔


قومی سطح پر کم آٹے کی پیداوار: پاکستان میں کئی برسوں سے آٹے کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ میں خشکی، بارش کی کمی، کھاد کی ناکافی فراہمی، اور پھیلاؤ کی ناکامی کے ہاؤسنگ سوساٹیز شامل ہیں۔


داخلی قیمتوں کے بحران: داخلی سطح پر آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث، پیداکاروں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ سیاسی انتقام کی پیش آمدگی، سیاست دانوں کی بے مروتی، اور مرکزی حکومت کی غفلت اس مسئلے کو بڑھا رہی ہیں۔

برائے امدادی موادات کی ناکافی فراہمی: پیداکاروں کو برائے امدادی موادات میں ناکافی فراہمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک سمیتی کا کال پورٹ، ناقص ٹریکٹر، اور کوئی پیداکار دوبارہ اپنے مواد کی فراہمی کے لئے دوچار ہو گیا۔


غیر قانونی فروش: آٹے کی غیر قانونی فروش اس مسئلے کے حل میں بھی ایک بڑا عامل ہے۔ آٹے کی کمی کے باعث، پیداکاروں کو اپنے مواد کے لئے درست قیمت نہیں دی جاتی، جس سے غیر قانونی فروش پیدا ہوتا ہے۔


خزانہ اور بینکوں کی ذخیرہ کی کمی: خزانہ اور بینکوں کی ذخیرہ کمی بھی آٹے کے بحران کے باعث ہے۔ بینکوں کے پاس کم سے کم ذخیرہ ہے، جس کے باعث وہ زیادہ آٹے خریدنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔


بحران سے متاثرہ خاندانوں کی بڑھتی تعداد: بحران سے متاثرہ خاندانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کہ آٹے کی قیمتوں کی بڑھتی ہوئی شرح کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔


مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ: مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ آٹے کے بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ اس لئے کہ آٹے کی کمی کے باعث، مصنوعات جیسے روٹی، نان، بسکٹ، اور کیک وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ہاؤسنگ سوساٹیز۔زرعی زمینوں پر دھڑا دھڑ سوساٹیز بنائی جا رہی ہیں۔جس سے مختلف اجناس میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

دیگر فعلیات: دیگر فعلیات جن میں شامل ہیں اربعین کا موسم، میاں والی کی سیاست، آٹے کے بدلے میں دوسری کمی کی شروعات، وبا، سیاسی انتقام کا آزادی مارچ، اور کورونا کی دوسری لہر۔


آٹے کے بحران کا حل کرنے کے لئے، حکومت کو مضبوط کاروائیاں اٹھانی ہوں گی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ پیداوار کو بڑھائے۔

بیرونی امداد کی کمی: پاکستان کے طویل ترین سرحد بھارت سے ہے، اور آٹے کے بحران کی وجہ سے بھارت نے آٹے کی بہت زیادہ کمی دیکھی ہے۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی آبادی کے معاشرے میں بھی آٹے کے بحران کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔


غیر موثر کشادگی کی وجہ سے ذخائر کی کمی: پاکستان میں غیر موثر کشادگی کی وجہ سے آٹے کے کھانے والے اقلیت کو زیادہ زخمی کیا گیا ہے۔ بہت سے کھانے والے پرائیویٹ ذخائر میں آٹے کی کمی کے باعث خانہ بدوشی کی شکایت کر رہے ہیں۔


غیر موثر تجارتی نظام: آٹے کے بحران کی وجہ سے آٹے کی تجارتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان میں آٹے کی تجارت کی چیزیں بیچنے والے افراد اور اداروں کے بیان کے مطابق، سیاسی نفع بخش تجارت کی وجہ سے ان کو اپنی منافع کو محفوظ کرنا مشکل ہوتا ہے۔


بجلی کی مہنگائی: آٹے کی پیداوار کے لئے ضروری ہے کہ بجلی کی سہولتیں دستیاب ہوں، جس کے لئے زیادہ بجلی کی مہنگائی بھی آٹے کے بحران کی بڑی وجہ ہے۔

بد قسمتی سے کم بارش: بد قسمتی سے پاکستان میں موسمیاتی حالات مختلف عوامل کی وجہ سے کم بارش کی مشکلات سے دوچار ہے، جس سے زرعی پیداوار کم ہوتی ہے۔


سیاسی انحرافات: آٹے کے بحران کی ایک اور بڑی وجہ سیاسی انحرافات ہیں جن کے باعث تجارتی لابراتوار کی مواد کی دستیابی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔


پرورشی تبدیلی: پاکستان میں پرورشی تبدیلی کی بھی وجہ سے آٹے کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔


بین الاقوامی بزنس: بین الاقوامی بزنس کے ذریعہ بھارت میں آٹے کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے ارض کے کسانوں کو زیادہ زخمی کیا گیا ہے۔


آٹے کے بحران کے حل کے لئے، پاکستان کی حکومت کو براہ راست کسانوں کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کسانوں کو مدد کرتے ہوئے، آٹے کی پیداوار کو بہتر بنایا جا سکتا۔

آٹا بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کی کیا حکمت عملی ہو سکتی ہے 


آٹے کے بحران کے قابو پانے کے لئے حکومت کے پاس کئی اقدامات ہیں جنہیں وضع کرنے کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ چند عملی حکمت عملی مندرجہ ذیل ہیں:


خصوصی طور پر درست پائی: حکومت کو درست پائی کی افراطی قیمتوں کے خلاف قانونی اقدامات اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آٹے کے بحران کے دوران، کچھ تجار افراطی قیمتوں پر درست پائی فروخت کرتے ہیں۔  

آٹے کا بحران

بیٹھک اعوان آباد (عامر سہیل ) تحصیل بلوچ میں آٹے کا بحران عوام علاقہ سراپا احتجاج۔ماہ مقدس میں عوام آٹے کو ترس گے۔اگر ہمارے مطالبات پورے نہ ہوئے تو پہیہ جام شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی جائے گی۔كونسلر رضوان رضا۔وزیر قانون فہیم ربانی کے اپنے آ


بائی ڈپو میں آٹے کا 310 ٹن ایلوکیشن کو کم کر کے 210 ٹن کر دیا گیا ہے۔بیٹھک ڈپو سے منسلک 109 ڈیلر ہیں ہر ڈیلر کو 12 من آٹا دیا جاتا ہے جو کہ بہت کم ہے۔جو ماہانہ 48 من بنتا ہے۔ ہر ڈیلر کے پاس کم و بیش 60 خاندان ہیں ان میں اب 12 من کیسے تقسیم کیا جائے۔ڈسٹرک كونسلر رضوان رضا اور عوام علاقہ نے وزیر قانون سے مطالبہ کیا ہے۔ کہ آپ بھی ذرا اپنے لوگوں کی خبر گيری کر لیں، لوگ آٹے کو ترس گئے ہیں، آپ کے ساتھ والے ضلع پونچھ میں جناب وزیراعظم نے ایلوکیشن ڈبل کروا لی اب وہاں کوئی بحران نہیں جبکہ باقی تحصیل کی بات تو دور ہے آپ کے اپنے ڈپو پر کچھ اس طرح کی صورتحال ہے۔ڈسٹرک کونسلر رضوان رضا کا کہنا تھا 

آج ہڑتال کی کال تھی لیکن عوام الناس تقدس رمضان المبارک میں جناب وزیر قانون اور محکمہ فوڈ کو مزید وقت دیتے ہیں کہ ہماری تحصیل کی ایلوکیشن بھی بڑھائی جائے اور بیٹھک ڈپو کی ایلوکیشن آبادی کے تناسب سے کم از کم 350 ٹن مختص کی جائے۔

جب تک ہر ڈیلر کو کم از کم ماہانہ60 سے 80من نہیں ملتا ضرورت پوری نہیں ہوگی۔انکا کہنا تھااُمید ہے کہ حکومت اور محکمہ فوڈ معاملہ کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے فوری ایکشن لیں گے۔ 

جمعرات، 16 مارچ، 2023

راولپنڈی میں آزاد کشمیر کا ایک اور نوجوان بے دردی سے قتل۔

راولپنڈی آزاد کشمیر ہجیرہ کے گاؤں پوٹھی چھپریاں کا رہائشی نوجوان ظہیر احمد کو سواں اڈہ راولپنڈی میں نا معلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

پولیس نے نعش کو اپنے قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا۔

جبکہ واقع کی تحقیات کی جا رہی ہیں ۔اس سے پہلے بھی آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو راولپنڈی میں بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے۔



  

A beautiful column written on the life of the people of Azad Kashmir.



آزاد کشمیر کے حوالے سے کئی نظریات ہیں اور اس کا معنی بھی مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس کی عین تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ یہ وہ خطہ ہے جو بھارت اور پاکستان کے مابین ایک ناقص لاعلمی کے نتیجے میں دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے۔


1947 میں برطانیہ کے دورہ خاکستر سے بعد، برطانیہ نے اپنی خلاف ورزی کے باعث بھارت اور پاکستان کے مابین خطہ کشمیر پر کسی بھی فیصلے کو آگے بڑھانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد، کشمیر کے حکومران آئین نگاری کو برطانیہ سے جوڑ کر ایک مشترکہ حکومت کا قیام کیا جا سکتا تھا، لیکن بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کے درمیان تنازعات کے باعث، دونوں ممالک نے کشمیر کے حصہ کو جیتنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد، کشمیر پر 1947 سے لے کر آج تک کئی جنگوں کا میدان رہا ہے اور آزادی کشمیر کی ترجیحات اور دعویٰ کی بنیاد پر کئی مذاکرات بھی ہوئیں۔


آزاد کشمیر کی عین ایک ایسے خطے کی بنیاد پر ہے جو کشمیریوں کے اپنے حقوق کے لئے لڑتے ہوئے، بھارتی و پاکستانی حکومتوں کے دونوں حصوں سے انکشاف کے خلاف مستقل طور پر جہدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔


آزاد کشمیر کے حوالے سے اہم مسائل میں شامل ہیں:


خود مختاری: آزاد کشمیر کے لوگ خود مختاری کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ بھارت اور پاکستان کے دونوں حکومتوں کو دوسرے کے اندر کشمیریوں کی خود مختاری کی تصور کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔


جنگ: بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے باعث جنگی تنازعات بھی ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک نے کئی بار کشمیر کے مسئلے کو جنگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔


حقوق بشر: کشمیر میں انسانی حقوق کے مسائل بھی ہیں۔ آزاد کشمیر میں بھارتی فوج کی قیامی ہوجہونے سے کشمیریوں کی زندگی میں بہت سی تکلیفیں پیدا ہوئی ہیں۔


ثقافتی وراثت: آزاد کشمیر میں مختلف ثقافتی گروہ موجود ہیں جن کی ثقافتی وراثت کو برقرار رکھنے کیلئے کام کیا جانا چاہئے۔


طبیعیاتی وسائل: آزاد کشمیر ایک خوبصورت خطہ ہے جہاں سے دنیا بھر میں سیاحت کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ اس خطے کے پیدائشی طبیعیاتی وسائل جیسے برف کے پہاڑ، دریاؤں، اور جھیلیں ہیں جو اسے مزید خوبصورت بناتی ہیں۔

اقتصادی ترقی: آزاد کشمیر کی اقتصادی ترقی کے لئے بڑے پیمانے پر کام کیا جانا چاہئے۔ اس خطے کے لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے ان کے لئے روزگار کے مواقع اور مہارتوں کے بھرپور حصول کی ضرورت ہے۔


تجارتی روابط: بھارت، پاکستان، اور چین کے درمیان کشمیر میں آمنے سامنے کے باعث تجارتی روابط کے موضوع پر بحث کیا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر کے بڑے شہر میرپور، موزفرآباد، کوٹلی، و جموں کشمیر کا مقام تجارتی لحاظ سے اہم ہے۔


تعلیم: کشمیر میں تعلیمی معیار اوچا نہیں ہے۔ اس میں انتہائی کم تعلیمی صلاحیت کے لوگ شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کے لئے بہترین تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو اپ ڈیٹ کرسکیں اور ترقی کے مواقع حاصل کرسکیں۔


صحت: کشمیر میں صحتی معیار اوچے نہیں ہیں۔ بیماریوں کی شدت، اور صحتی سہولیات کی کمی کے باعث لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔


حقوق بشر: کشمیر میں حقوق بشر کی خلاف ورزی کے معاملات پائے جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ انتہائی حساس ہے اور اس پر حل کے لئے کوشش کی جانی چاہئے۔


سیاسی ارادہ: آزاد کشمیر کا سیاسی ارادہ بھی انتہائی اہم ہے۔ اس سے مراد کشمیریوں کی خود مختاری، سیاسی اور عدالتی ح



قوق کے حصول، اور آزادی ہے۔ 

بدھ، 8 مارچ، 2023

Where does the Pakistani government spend people's tax money?


جیسے کہ قدرتی وسائل کا انتظام اور آلودگی میں کمی۔


غیر ملکی امداد: حکومت ٹیکس کی رقم کو دوسرے ممالک کو غیر ملکی امداد فراہم کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے، خاص طور پر قدرتی آفات یا انسانی بحران کے وقت۔


تحقیق اور ترقی: حکومت سائنس، ٹیکنالوجی اور طب جیسے مختلف شعبوں میں تحقیق اور ترقی کے لیے فنڈز مختص کر سکتی ہے۔


ثقافتی اور ورثے کا تحفظ: حکومت ثقافتی اور تاریخی مقامات اور یادگاروں کے تحفظ اور بحالی پر رقم خرچ کر سکتی ہے۔


سیاحت: حکومت سیاحت کو فروغ دینے کے لیے فنڈز مختص کر سکتی ہے، جس سے ملک کی معیشت کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔


یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستانی حکومت کو بدعنوانی، ناکارہ بیوروکریسی اور سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل کی وجہ سے ٹیکس کی رقم کو مؤثر طریقے سے مختص کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے ٹیکس کی رقم خرچ کرنے میں شفافیت اور جوابدہی کو بہتر بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔

ہفتہ، 4 مارچ، 2023

پونچھ ہاؤس راولپنڈی

پونچھ ہاٶس راولپنڈی

ڈیڑھ سو سال پرانا یہ محل۔نما گھر پونچھ ہاٶس کے نام سے جانا جاتا ہے

 یہ خوبصورت محل نما گھر اپنے بنوانے والوں کے دور حکومت اور طرز حکومت کی یاد بھی تازہ کرتا ہے

یہ ہاٶس ریاست جموں کشمیر کے بانی ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے بھتیجے موتی سنگھ نے اسے1897 میں دوسرے بادشاہوں، شہزادوں کیلئے آرام گاہ، اور اپنے محل کے طور پر استعمال کے لئیے تعمیر کروایا تھا  

پنڈی کے علاقے مریڑ حسن سے زرا سا آگے دائیں جانب آدم جی روڈ پر واقع سحر انگیز پر شکوہ محل واقع ہے

اس پرشکوہ عمارت کے مرکزی ہال میں خالصتاً کشمیری انداز میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے بنی بالکنیاں موجود ہیں

1914 میں پونچھ ریاست جموں اور کشمیر کا حصہ بنا تو یہ عمارت کشمیر کے حکمران مہاراجا گلاب سنگھ کی جائیداد بن گئی۔

قیام پاکستان کے بعد 1950 کی دہائی میں یہ عمارت آزاد جموں و کشمیر کے پہلے وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور صدر و وزیر اعظم کے کیمپ آفس کے طور پر بھی استعمال ہوئی۔اس عمارت کو عمدہ کاریگری اور لگن سے بنایا گیا ہے اس کے راستوں کو روشن کرنے کیلئے لکڑی کی چھتوں میں روشن دان اور کھڑکیاں بڑی کاریگری سے بناٸی گٸیں ہیں

فن تعمیر کے ماہر کاریگروں نے کشمیری لکڑی پر پیچدہ کاری گری سے یورپی اور ہندوستانی فن تعمیر کا دل کش ملاپ کا یہ شاہکار تیار کیا

عمارت میں خواتین اور مردوں کی رہائش کیلئے 27 علیحدہ علیحدہ کمرے جن میں غسل خانے اور دلان بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مہاراجا مرکزی ہال میں عدالتیں اور بڑی تقریبات منعقد کیا کرتے تھے

عمارت کی دیواریں خوبصورت نقش نگاری اور خوبصورتی سے بنائی لکڑی کی بنی بالکنیوں سے سجی ہیں۔

مہاراجا کی رہائیش عمارت کی اوپری منزل پر ملازمین کے چھوٹے چھوٹے کمروں سے ملحق تھی۔

 کسی دور میں پونچھ ہاؤس کا صحن اور میدان 37 کنال کا ہوا کرتا تھا لیکن آج یہ سکڑ کر محض 23 کنال رہ گیا ہے۔ 1983 میں پونچھ ہاؤس کے دلان میں ایک دس منزلہ عمارت بنائی گئی جسے پونچھ ھاؤس کا نام دیا گیا دراصل یہ پرانی عمارت پونچھ ہاؤس کہلاتی تھی 

۔یہ حصہ کبھی کشمیر کے مہاراجا کا دربار ہوا کرتا




تھا۔ 

ضلع سدھنوتی کی مختصر تاریخ

آزاد کشمیر کا ضلعی سدھنوتی 1996ء میں قائم ہوا۔ اس کا رقبہ 569 مربع کلو میٹر ہے۔ جو آزاد کشمیر کے کل رقبے کا %4 ہے۔ اس ضلع کی آبادی 340,000 ن...