منگل، 11 اپریل، 2023

ضلع سدھنوتی کی مختصر تاریخ



آزاد کشمیر کا ضلعی سدھنوتی 1996ء میں قائم ہوا۔ اس کا رقبہ 569 مربع کلو میٹر ہے۔ جو آزاد کشمیر کے کل رقبے کا %4 ہے۔ اس ضلع کی آبادی 340,000 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس ضلع کے تاریخی مقامات میں بارل اور منگ تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ قلعہ بارل پلندری شہر سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ضلع کے سیاحتی مقامات میں بارل، بلوچ، بیٹھک گجن، ٹھنڈی کسی قلعاں، بساڑی، تراڑکھل اور آزاد پین مشہور ہیں۔ تراڑکھل کے گاؤں نیریاں شریف میں ایک مذہبی و روحانی پیشوا پیر علاؤ الدین صدیقی کی کاوشوں سے ایک اسلامک یو نیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ نیریاں شریف میں پیر محی الدین غزنوی اور ان کے صاحبزادے پیر علاؤ الد ین صدیقی کا مزار مرجع خلائق ہے۔ پلندری شہر پلندری آزاد کشمیر کا ایک چھوٹا قصبہ نما شہر ہے۔ یہ ضلع سدھنوتی کا ضلعی ہیڈ کوارٹر بھی ہے ۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 4500 فٹ ہے۔ 1996 میں سدھنوتی کو ضلعی درجہ ملنے کے بعد پلندری شہر کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ قبل ازیں پلندری ضلع پونچھ کی ایک تحصیل تھی۔ پلندری میں کیڈٹ کالج ایک مثالی تعلیمی ادارہ ہے جبکہ مولانا محمد یوسف کا قائم کردہ دینی دار العلوم بھی ایک اہم درس گاہ ہے۔ شہر میں ادارے ، ہوٹل، ریسٹ ہاؤس اور حکومتی دفاتر قائم ہیں۔ شہر میں ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء دستیاب ہیں۔ پلندری شہر پہاڑوں کی چوٹی پر واقع ہے۔ اس کے آس پاس خوبصورت جنگلات ہیں ۔ یہاں سے پاکستان کا شہر راولپنڈی 97 کلومیٹر اور راولاکوٹ 54 کلو میٹر ہے ۔ جبکہ دارالحکومت مظفر آباد 100 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیاحتی اعتبار سے پلندری پر کشش مقام ہے۔ پلندری شہر سے مشرق کی سمت ایک کلومیٹر کے فاصلے پر مہاراجہ پونچھ کا تاریخی محل واقع ہے جسے مقامی لوگ باولی کہتے ہیں۔ یہ فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے لیکن حکومتی بے حسی کے سبب یہ تاریخی عمارت خستہ حال ہو رہی ہے ۔ اس تاریخی ورثے کو بچانا اہلیان علاقہ کی قومی ذمہ داری ہے۔ 






پیر، 10 اپریل، 2023

کشمیر اور اردو صحافت





مہاراجہ پرتاب سنگھ کے عہد حکومت میں ایک ہند و صحافی لالہ ملک راج صراف کی مسلسل کوشش سے 20 مئی 1924ء کو جموں سے پہلا اردو اخبار رنبیر جاری ہوا۔ یہ اخبار 26 سال تک (1950 تک) شائع ہوتا رہا۔ رنبیر شائع ہونے کے بعد 1932 ء تک کوئی دوسرا اخبار شائع نہ ہوا ۔ البتہ 1932ء کے بعد حسب ذیل اخبارات شائع ہوئے۔ امر سویرا، بیچ کشمیر میں ، ولن، پاسبان حقیقت، لارشن، انڈسٹریل ، زندگی، چاند، فردوس، چناب، خورشید، جمہور اور جاوید فیرو مہاراجہ ہری سنگھ کے عہد حکومت میں وادی کشمیر سے پہلا اردو اخبار وتستا جاری ہوا جسے پنڈت پریم ناتھ بزاز نے جاری کیا۔ اس کے بعد وادی کشمیر سے جو اخبارات شائع ہوئے ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ ہمدردہ کیسری ، دیش ، خالد ، خدمت، حقیقت، صداقت، نور، جہانگیر اسلام، راہنما، قومی درد، بے کار، حریت، دہقان، توحید، بدایت، سدھار، اصلاح، وکیل، روشنی ، ذوالفقار ، خالصه گزت، امرت ، منطور، شمشیر، دچار ، طبیب ، مسیحا، نشاط ، کونگ پوش پیغام، پنوار گزٹ ، سدھارک، زعفران، کشمیر، ابرق، کشمیر کرانیکل، جو ہر وغیرہ۔ ریاست جموں کشمیر میں پریس ایکٹ مہاراجہ پرتاب سنگھ کے عہد میں بنا۔ اس ایکٹ کے تحت کوئی اخبار جاری کرنے کی درخواست پر صرف مہاراجہ بہادر ہی غور کر سکتا تھا۔ جموں کشمیر کی صحافتی تاریخ میں 13 فروری 1944 ء کو وزیر اعظم سربی این راؤ نے اپنے دفتر میں پہلی پریس کانفرنس طلب کی جس میں 20 کے قریب ایڈیٹروں اور اخباری نمائندوں نے شرکت کی۔ ریاست جموں کشمیر کے نامور صحافی و دانشور دید حسین 5 نومبر 2015 ء کو جموں میں انتقال کر گئے۔ 

جمعہ، 7 اپریل، 2023

ریاست جموں کشمیر کا کل رقبہ



ریاست جموں کشمیر کا کل رقبہ 84,471 مربع میل (218779 مربع کلومیٹر) ہے ۔ بلحاظ رقبہ ریاست جموں کشمیر دنیا کے 111 آزاد خود مختار ممالک سے بڑی ہے۔ تقسیم کشمیر سے پہلے ریاست کاصوبائی رقبہ حسب ذیل تھا۔


صوبہ جموں.12.378 مربع میل

صوبہ کشمیر.8.539 مربع میل

صوبه لداخ و گلگت.63.554 مربع میل

 1947ء کے بعد ریاست جموں کشمیر پر پاکستان ، ہندوستان اور چین کے قبضے کے سبب

ریاست کے مقبوضہ علاقوں کا رقبہ حسب ذیل ہے۔بھارت کے زیر قبضہ صوبه لداخ.24.569 مربع میل

صوبہ کشمیر.6.839 مربع میل

صوبہ جموں.9,880 مربع میل کل بھارتی مقبوضہ علاقہ 41,342 مربع میل ہے (1.07.075 مربع کلو میٹر ) ۔

پاکستان کے زیر قبضہ


آزاد کشمیر

27946 مربع میل (72,379.8 مربع کلومیٹر) 4,144 مربع میل (10.7329 مربع کلومیٹر )

کل پاکستانی علاقہ 32,090 مربع میل (83,112.7 مربع کلومیٹر) ہے۔

چین کے زیر قبضہ

1962 ء کی بھارت چین جنگ کے نتیجے میں چین نے بھارت کے زیر قبضہ صوبہ لداخ کا 9.171 مربع میل (23752.7 مربع کلو میٹر ) اپنے قبضے میں لے لیا جسے اقصائی چن کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے صدر ایوب خان نے گلگت بلتستان کی شمال سرحد پر 1,868 مربع میل (4,838 مربع کلو میٹر) کا علاقہ پاک چین سرحدی معائدہ کرتے وقت (1963) چین کو تحفتا دے دیا۔ یہ دونوں خطے ملا کر چین کے زیر قبضہ ریاست جموں کشمیر کا کل 11039 مربع میل (28,590.8 مربع کلومیٹر ) علاقہ ہے۔ 

جمعہ، 31 مارچ، 2023

دنیا میں کشمیر کی سیاسی حثیت اور یاسر عرفات کا موقف۔

دنیا میں کشمیر کی سیاسی حثیت کیا ہے ؟

دنیا میں کشمیر کی سیاسی حیثیت بہت متغیر ہے اور اس پر مختلف ملکوں کی نظریں مختلف ہیں۔

بعض ممالک کشمیر کو پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں جبکہ دوسرے ممالک اسے بھارت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ بیشتر بین الاقوامی مجامع کشمیر کو غیر خود مختار ریاست تصور کرتے ہیں اور ان کیلئے مستقبل کی حیثیت قائم رکھی جاتی ہے۔

کشمیر مسئلہ دو ملکوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد پر ہے اور یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بھی ہے۔ ملکوں کے درمیان تنازع کشمیر مسئلہ کے بارے میں بین الاقوامی اداروں میں بحث جاری ہے، جس میں امم متحدہ، امریکہ، روس، چین اور دیگر ممالک شامل ہیں۔

کچھ لوگ کشمیریوں کے لیے خود مختار ریاست کی منظوری دیتے ہیں اور ان کو انتخابات کے ذریعے فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہتے ہیں۔ البتہ اس مسئلے کے حل کے لئے ایک دوسرے کے خلاف کڑی رائے رکھنے والے متعدد ریاستوں کے درمیان ایک مشترکہ حل تلاش کرنا ضروری ہے۔

کشمیر مسئلہ دنیا بھر میں سیاسی، استراتیجی، اقتصادی اور جغرافیائی وجوہات کی بنیاد پر مختلف ملکوں اور کشمیریوں کے درمیان بارہا رہا ہے۔

ایک طرف پاکستان کشمیر کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے، جبکہ بھارت کشمیر کو اپنا انتظامی ریاست تصور کرتا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان 1947ء کے تقسیمِ ہند کے بعد شروع ہونے والے کشمیر کے دوہرے پرزے کو لے کر تنازع ہے۔

ایک جانب کشمیر میں اغوا کی وجہ سے پاکستان بھارت سے لے کر جہادیوں کے اندر امن کی صورت میں تعاون کرتا ہے، دوسری جانب بھارت کشمیر میں ارضی نفوذ کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دنیا کے مختلف حصوں میں کشمیریوں کے حقوق کیلئے احتجاجات بھی ہوئے ہیں اور ان کے حقوق کو برقرار رکھنے کی خاطر بین الاقوامی دباؤ بھی دیا جاتا ہے۔

ایک مسئلہ جس کا اثر پوری دنیا میں محسوس ہو رہا ہے، کشمیر مسئلہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ جیو پولیٹکس کی دنیا میں سیاست، تاریخ اور جغرافیہ کیا ہوتے ہیں اور ان کے تعلقات کیا ہوتے ہیں۔

کشمیر مسئلہ کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہ دنیا بھر کے دیگر امتیازی مسائل کی طرح، اقلیتوں کے حقوق اور خود ارادیت کے تقاضوں کو بھی شامل کرتا ہے۔

کشمیریوں کے حقوق کیلئے دنیا بھر میں کئی احتجاجی تحریکیں ہوئی ہیں جن میں کشمیری جدوجہد کا مشہور نام یاسر عرفات بھی شامل ہے۔

انتہائی مشکل، ترسیلی، جغرافیائی اور تاریخی شرائط کی وجہ سے، کشمیر مسئلہ کا حل مشکل ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان توانائیاں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے حل کے لئے بین الاقوامی اقدامات کرنا اور تحریک کرنا مزید ضروری ہوتا جا رہا ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل دو ملکوں کے بیچ دونوں طرفوں کی رضاکاری سے ممکن ہے، جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کے خود ارادیت کا حق دینا چاہئے۔

کشمیر مسئلہ کا حل اس سے بھی بہت زیادہ اہم ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ کے لئے دنیا کو ایک بے چینی اور خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

یاسر عرفات، فلسطین کے تحریک کے مشہور رہنما تھے جنہوں نے دنیا بھر میں مظلوم امتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کیا۔ انہوں نے کشمیریوں کے مقدمے کو بھی حمایت کی تھی۔

یاسر عرفات نے کشمیریوں کے حقوق کیلئے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعے کو حل کرنے کیلئے اقدامات کیے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دوران کئی مرتبہ کشمیر جانے کی کوشش کی اور کشمیریوں سے ملاقاتیں کیں۔


یاسر عرفات نے 1991ء میں بھارتی کشمیر جانے کی کوشش کی تھی، لیکن اس کو بھارت کی حکومت نے روک دیا۔ انہوں نے اپنے خطابات اور بیانات میں کشمیریوں کے حقوق کے حصول کیلئے اقدامات کا ذکر کیا اور دنیا کو کشمیر کے مسئلے کی اہمیت پر غور کرنے کی ترغیب دی۔


یاسر عرفات نے کشمیریوں کے مقدمے کے لئے خصوصی شفقت رکھی تھی، اور وہ ان کے حقوق کے لئے دنیا بھر میں آواز بلند کرتے رہے۔ 


یاسر عرفات کا کشمیریوں کے مقدمے کے ساتھ انتہائی احساس تھا۔ انہوں نے کشمیریوں کے حقوق کی دفاع کیلئے دنیا بھر میں تحریکات کیں اور دنیا کے ممالک کو کشمیر کے مسئلے کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔


یاسر عرفات نے اپنے عربی خطابات میں کشمیر کی آزادی کیلئے دعا کی اور انہوں نے پاکستان اور بھارت کو اس مسئلے کے حل کیلئے مذاکرات کرنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے حصول کے لئے کئی بار پاکستان کی حمایت کی اور اس مسئلے کو دولت اسلامیہ کے حصے کے طور پر شمار کیا۔


یاسر عرفات نے بھارتی کشمیر پر حکومت کے تظاہرات کو بھی مذمت کیا۔ انہوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف شدید الفاظ کا استعمال کیا اور ان کے عمل کو انسانی حقوق کی توہین قرار دیا۔

کل یاسر عرفات کشمیر مسئلے کے حل کے لئے دنیا بھر میں تحریکات کی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دوران کئی بار کشمیر جانے کی کوشش کی اور کشمیریوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے اقدامات نے کشمیر مسئلے کو دنیا بھر میں عوامی توجہ کی مرکزیت میں رکھا اور اس مسئلے کی حل کیلئے تح


ریکات کی آگاہی کو بڑھایا۔


 

منگل، 28 مارچ، 2023

جمہوری اور اسلامی صدارتی نظام میں واضح فرق کیا ہوتا ہے ؟


جمہوری اور اسلامی صدارتی نظام دونوں مختلف نظام ہیں جو مختلف مقاصد کے لئے تشکیل دیے جاتے ہیں۔


جمہوری نظام میں، صدارتی نظام کی بنیاد جمہوریت ہوتی ہے۔ اس نظام میں، صدر جمہوریت کا حامی ہوتا ہے جو عوام کے انتخاب سے انتظامی عہدے پر آتا ہے۔ اس طرح کے نظام میں، صدر کا عہدہ عام طور پر غیر ملکی خدمات سے ہٹ کر بلحاظ ملکی عملیات محدود ہوتا ہے۔


دوسری طرف، اسلامی نظام میں، صدارتی نظام کی بنیاد دینیت ہوتی ہے۔ اس نظام میں، صدر ایک دینی رہنما ہوتا ہے جو مسلمانوں کی ترویج اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت، صدر کا عہدہ ملک کی دینی اور دنیوی امور کے حل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔


بشمول مذہبی حکومت میں، عموماً صدر کو ایک دینی رہنما ہونا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ دینی مجالس یا دینی رہنماؤں کی ایک شوروی رکن کی طرح کام کرتا ہے۔


اختیاری نظامات میں، جمہوری اور اسلامی صدارتی نظام میں فرق آتا ہے


جمہوری اور اسلامی صدارتی نظام کے فرق کے علاوہ، دونوں نظاموں میں بھی دیگر فرق موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ، یہاں کچھ اہم فرقات آپ کو بتاتے ہیں۔

نظام کے بنیادی اصول: جمہوری نظام بنیادی طور پر جمہوریت پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ اسلامی نظام اسلام کی بنیاد پر مشتمل ہوتا ہے۔


حکومت کی شکل: جمہوری نظام میں، عوام کے انتخابات کے ذریعے ممبران پارلیمان اور صدر کو منتخب کیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، حکومت عموماً ایک خاندان یا علیحدہ رہنما کی ایک اہلیت پر مشتمل ہوتی ہے۔


قانون: جمہوری نظام میں، قانون پارلیمان کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، قانون شریعت پر مبنی ہوتا ہے۔


حقوق اور آزادیاں: جمہوری نظام میں، افراد کے حقوق اور آزادیوں کی حفاظت پر زور دیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، انصاف اور انصاف کے حصول کے لئے شریعت کی پیروی کی جاتی ہے۔


تعلیم: اسلامی نظام میں، تعلیم عموماً دینی تعلیم پر مبنی ہوتی ہے، جبکہ جمہوری نظام میں، تعلیم عمومی، تجارتی، طبی، اور دینی تعلیم سب پر مشتمل ہو


اجتماعی اور اقتصادی نظام: اسلامی نظام میں، اجتماعی اور اقتصادی نظام عموماً اسلامی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ جمہوری نظام میں، اجتماعی اور اقتصادی نظام کے ترتیبات مختلف ہو سکتے ہیں۔


مذہب: جمہوری نظام میں، مذہب کی پیروی کی پوری آزادی موجود ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، عموماً صرف اسلام کی پیروی کی اجازت دی جاتی ہے۔


نظامی ادارے: اسلامی نظام میں، نظامی ادارے (مثلاً قضائی نظام) شریعت پر مبنی ہوتے ہیں، جبکہ جمہوری نظام میں، نظامی ادارے عموماً قانون پر مبنی ہوتے ہیں۔


خدمات عوام: جمہوری نظام میں، خدمات عوام کی پیشکش کے لئے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رقابت کرتی ہیں، جبکہ اسلامی نظام میں، حکومت کو افراد کی ضروریات کی تعلیم دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔


امن وامان: دونوں نظاموں میں امن و امان کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان کے حصول کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ جمہوری نظام میں، عوام کی رائے اور حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے، جبکہ اسلامی نظام میں، شریعت کی پیروی کی جاتی ہے جو امن و امان کی حصول کے لئے ضروری ہے۔




ہفتہ، 25 مارچ، 2023

ملک میں آٹے کے بحران کی بڑی وجہ کیا ہے آئیے جانے کی کوشش کرتے ہیں


۔


قومی سطح پر کم آٹے کی پیداوار: پاکستان میں کئی برسوں سے آٹے کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ میں خشکی، بارش کی کمی، کھاد کی ناکافی فراہمی، اور پھیلاؤ کی ناکامی کے ہاؤسنگ سوساٹیز شامل ہیں۔


داخلی قیمتوں کے بحران: داخلی سطح پر آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث، پیداکاروں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ سیاسی انتقام کی پیش آمدگی، سیاست دانوں کی بے مروتی، اور مرکزی حکومت کی غفلت اس مسئلے کو بڑھا رہی ہیں۔

برائے امدادی موادات کی ناکافی فراہمی: پیداکاروں کو برائے امدادی موادات میں ناکافی فراہمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک سمیتی کا کال پورٹ، ناقص ٹریکٹر، اور کوئی پیداکار دوبارہ اپنے مواد کی فراہمی کے لئے دوچار ہو گیا۔


غیر قانونی فروش: آٹے کی غیر قانونی فروش اس مسئلے کے حل میں بھی ایک بڑا عامل ہے۔ آٹے کی کمی کے باعث، پیداکاروں کو اپنے مواد کے لئے درست قیمت نہیں دی جاتی، جس سے غیر قانونی فروش پیدا ہوتا ہے۔


خزانہ اور بینکوں کی ذخیرہ کی کمی: خزانہ اور بینکوں کی ذخیرہ کمی بھی آٹے کے بحران کے باعث ہے۔ بینکوں کے پاس کم سے کم ذخیرہ ہے، جس کے باعث وہ زیادہ آٹے خریدنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔


بحران سے متاثرہ خاندانوں کی بڑھتی تعداد: بحران سے متاثرہ خاندانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کہ آٹے کی قیمتوں کی بڑھتی ہوئی شرح کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔


مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ: مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ آٹے کے بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ اس لئے کہ آٹے کی کمی کے باعث، مصنوعات جیسے روٹی، نان، بسکٹ، اور کیک وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ہاؤسنگ سوساٹیز۔زرعی زمینوں پر دھڑا دھڑ سوساٹیز بنائی جا رہی ہیں۔جس سے مختلف اجناس میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

دیگر فعلیات: دیگر فعلیات جن میں شامل ہیں اربعین کا موسم، میاں والی کی سیاست، آٹے کے بدلے میں دوسری کمی کی شروعات، وبا، سیاسی انتقام کا آزادی مارچ، اور کورونا کی دوسری لہر۔


آٹے کے بحران کا حل کرنے کے لئے، حکومت کو مضبوط کاروائیاں اٹھانی ہوں گی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ پیداوار کو بڑھائے۔

بیرونی امداد کی کمی: پاکستان کے طویل ترین سرحد بھارت سے ہے، اور آٹے کے بحران کی وجہ سے بھارت نے آٹے کی بہت زیادہ کمی دیکھی ہے۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی آبادی کے معاشرے میں بھی آٹے کے بحران کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔


غیر موثر کشادگی کی وجہ سے ذخائر کی کمی: پاکستان میں غیر موثر کشادگی کی وجہ سے آٹے کے کھانے والے اقلیت کو زیادہ زخمی کیا گیا ہے۔ بہت سے کھانے والے پرائیویٹ ذخائر میں آٹے کی کمی کے باعث خانہ بدوشی کی شکایت کر رہے ہیں۔


غیر موثر تجارتی نظام: آٹے کے بحران کی وجہ سے آٹے کی تجارتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان میں آٹے کی تجارت کی چیزیں بیچنے والے افراد اور اداروں کے بیان کے مطابق، سیاسی نفع بخش تجارت کی وجہ سے ان کو اپنی منافع کو محفوظ کرنا مشکل ہوتا ہے۔


بجلی کی مہنگائی: آٹے کی پیداوار کے لئے ضروری ہے کہ بجلی کی سہولتیں دستیاب ہوں، جس کے لئے زیادہ بجلی کی مہنگائی بھی آٹے کے بحران کی بڑی وجہ ہے۔

بد قسمتی سے کم بارش: بد قسمتی سے پاکستان میں موسمیاتی حالات مختلف عوامل کی وجہ سے کم بارش کی مشکلات سے دوچار ہے، جس سے زرعی پیداوار کم ہوتی ہے۔


سیاسی انحرافات: آٹے کے بحران کی ایک اور بڑی وجہ سیاسی انحرافات ہیں جن کے باعث تجارتی لابراتوار کی مواد کی دستیابی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔


پرورشی تبدیلی: پاکستان میں پرورشی تبدیلی کی بھی وجہ سے آٹے کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔


بین الاقوامی بزنس: بین الاقوامی بزنس کے ذریعہ بھارت میں آٹے کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے ارض کے کسانوں کو زیادہ زخمی کیا گیا ہے۔


آٹے کے بحران کے حل کے لئے، پاکستان کی حکومت کو براہ راست کسانوں کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کسانوں کو مدد کرتے ہوئے، آٹے کی پیداوار کو بہتر بنایا جا سکتا۔

آٹا بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کی کیا حکمت عملی ہو سکتی ہے 


آٹے کے بحران کے قابو پانے کے لئے حکومت کے پاس کئی اقدامات ہیں جنہیں وضع کرنے کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ چند عملی حکمت عملی مندرجہ ذیل ہیں:


خصوصی طور پر درست پائی: حکومت کو درست پائی کی افراطی قیمتوں کے خلاف قانونی اقدامات اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آٹے کے بحران کے دوران، کچھ تجار افراطی قیمتوں پر درست پائی فروخت کرتے ہیں۔  

آٹے کا بحران

بیٹھک اعوان آباد (عامر سہیل ) تحصیل بلوچ میں آٹے کا بحران عوام علاقہ سراپا احتجاج۔ماہ مقدس میں عوام آٹے کو ترس گے۔اگر ہمارے مطالبات پورے نہ ہوئے تو پہیہ جام شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی جائے گی۔كونسلر رضوان رضا۔وزیر قانون فہیم ربانی کے اپنے آ


بائی ڈپو میں آٹے کا 310 ٹن ایلوکیشن کو کم کر کے 210 ٹن کر دیا گیا ہے۔بیٹھک ڈپو سے منسلک 109 ڈیلر ہیں ہر ڈیلر کو 12 من آٹا دیا جاتا ہے جو کہ بہت کم ہے۔جو ماہانہ 48 من بنتا ہے۔ ہر ڈیلر کے پاس کم و بیش 60 خاندان ہیں ان میں اب 12 من کیسے تقسیم کیا جائے۔ڈسٹرک كونسلر رضوان رضا اور عوام علاقہ نے وزیر قانون سے مطالبہ کیا ہے۔ کہ آپ بھی ذرا اپنے لوگوں کی خبر گيری کر لیں، لوگ آٹے کو ترس گئے ہیں، آپ کے ساتھ والے ضلع پونچھ میں جناب وزیراعظم نے ایلوکیشن ڈبل کروا لی اب وہاں کوئی بحران نہیں جبکہ باقی تحصیل کی بات تو دور ہے آپ کے اپنے ڈپو پر کچھ اس طرح کی صورتحال ہے۔ڈسٹرک کونسلر رضوان رضا کا کہنا تھا 

آج ہڑتال کی کال تھی لیکن عوام الناس تقدس رمضان المبارک میں جناب وزیر قانون اور محکمہ فوڈ کو مزید وقت دیتے ہیں کہ ہماری تحصیل کی ایلوکیشن بھی بڑھائی جائے اور بیٹھک ڈپو کی ایلوکیشن آبادی کے تناسب سے کم از کم 350 ٹن مختص کی جائے۔

جب تک ہر ڈیلر کو کم از کم ماہانہ60 سے 80من نہیں ملتا ضرورت پوری نہیں ہوگی۔انکا کہنا تھااُمید ہے کہ حکومت اور محکمہ فوڈ معاملہ کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے فوری ایکشن لیں گے۔ 

جمعرات، 16 مارچ، 2023

راولپنڈی میں آزاد کشمیر کا ایک اور نوجوان بے دردی سے قتل۔

راولپنڈی آزاد کشمیر ہجیرہ کے گاؤں پوٹھی چھپریاں کا رہائشی نوجوان ظہیر احمد کو سواں اڈہ راولپنڈی میں نا معلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

پولیس نے نعش کو اپنے قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا۔

جبکہ واقع کی تحقیات کی جا رہی ہیں ۔اس سے پہلے بھی آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو راولپنڈی میں بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے۔



  

A beautiful column written on the life of the people of Azad Kashmir.



آزاد کشمیر کے حوالے سے کئی نظریات ہیں اور اس کا معنی بھی مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس کی عین تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ یہ وہ خطہ ہے جو بھارت اور پاکستان کے مابین ایک ناقص لاعلمی کے نتیجے میں دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے۔


1947 میں برطانیہ کے دورہ خاکستر سے بعد، برطانیہ نے اپنی خلاف ورزی کے باعث بھارت اور پاکستان کے مابین خطہ کشمیر پر کسی بھی فیصلے کو آگے بڑھانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد، کشمیر کے حکومران آئین نگاری کو برطانیہ سے جوڑ کر ایک مشترکہ حکومت کا قیام کیا جا سکتا تھا، لیکن بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کے درمیان تنازعات کے باعث، دونوں ممالک نے کشمیر کے حصہ کو جیتنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد، کشمیر پر 1947 سے لے کر آج تک کئی جنگوں کا میدان رہا ہے اور آزادی کشمیر کی ترجیحات اور دعویٰ کی بنیاد پر کئی مذاکرات بھی ہوئیں۔


آزاد کشمیر کی عین ایک ایسے خطے کی بنیاد پر ہے جو کشمیریوں کے اپنے حقوق کے لئے لڑتے ہوئے، بھارتی و پاکستانی حکومتوں کے دونوں حصوں سے انکشاف کے خلاف مستقل طور پر جہدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔


آزاد کشمیر کے حوالے سے اہم مسائل میں شامل ہیں:


خود مختاری: آزاد کشمیر کے لوگ خود مختاری کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ بھارت اور پاکستان کے دونوں حکومتوں کو دوسرے کے اندر کشمیریوں کی خود مختاری کی تصور کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔


جنگ: بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے باعث جنگی تنازعات بھی ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک نے کئی بار کشمیر کے مسئلے کو جنگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔


حقوق بشر: کشمیر میں انسانی حقوق کے مسائل بھی ہیں۔ آزاد کشمیر میں بھارتی فوج کی قیامی ہوجہونے سے کشمیریوں کی زندگی میں بہت سی تکلیفیں پیدا ہوئی ہیں۔


ثقافتی وراثت: آزاد کشمیر میں مختلف ثقافتی گروہ موجود ہیں جن کی ثقافتی وراثت کو برقرار رکھنے کیلئے کام کیا جانا چاہئے۔


طبیعیاتی وسائل: آزاد کشمیر ایک خوبصورت خطہ ہے جہاں سے دنیا بھر میں سیاحت کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ اس خطے کے پیدائشی طبیعیاتی وسائل جیسے برف کے پہاڑ، دریاؤں، اور جھیلیں ہیں جو اسے مزید خوبصورت بناتی ہیں۔

اقتصادی ترقی: آزاد کشمیر کی اقتصادی ترقی کے لئے بڑے پیمانے پر کام کیا جانا چاہئے۔ اس خطے کے لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے ان کے لئے روزگار کے مواقع اور مہارتوں کے بھرپور حصول کی ضرورت ہے۔


تجارتی روابط: بھارت، پاکستان، اور چین کے درمیان کشمیر میں آمنے سامنے کے باعث تجارتی روابط کے موضوع پر بحث کیا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر کے بڑے شہر میرپور، موزفرآباد، کوٹلی، و جموں کشمیر کا مقام تجارتی لحاظ سے اہم ہے۔


تعلیم: کشمیر میں تعلیمی معیار اوچا نہیں ہے۔ اس میں انتہائی کم تعلیمی صلاحیت کے لوگ شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کے لئے بہترین تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو اپ ڈیٹ کرسکیں اور ترقی کے مواقع حاصل کرسکیں۔


صحت: کشمیر میں صحتی معیار اوچے نہیں ہیں۔ بیماریوں کی شدت، اور صحتی سہولیات کی کمی کے باعث لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔


حقوق بشر: کشمیر میں حقوق بشر کی خلاف ورزی کے معاملات پائے جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ انتہائی حساس ہے اور اس پر حل کے لئے کوشش کی جانی چاہئے۔


سیاسی ارادہ: آزاد کشمیر کا سیاسی ارادہ بھی انتہائی اہم ہے۔ اس سے مراد کشمیریوں کی خود مختاری، سیاسی اور عدالتی ح



قوق کے حصول، اور آزادی ہے۔ 

بدھ، 8 مارچ، 2023

Where does the Pakistani government spend people's tax money?


جیسے کہ قدرتی وسائل کا انتظام اور آلودگی میں کمی۔


غیر ملکی امداد: حکومت ٹیکس کی رقم کو دوسرے ممالک کو غیر ملکی امداد فراہم کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے، خاص طور پر قدرتی آفات یا انسانی بحران کے وقت۔


تحقیق اور ترقی: حکومت سائنس، ٹیکنالوجی اور طب جیسے مختلف شعبوں میں تحقیق اور ترقی کے لیے فنڈز مختص کر سکتی ہے۔


ثقافتی اور ورثے کا تحفظ: حکومت ثقافتی اور تاریخی مقامات اور یادگاروں کے تحفظ اور بحالی پر رقم خرچ کر سکتی ہے۔


سیاحت: حکومت سیاحت کو فروغ دینے کے لیے فنڈز مختص کر سکتی ہے، جس سے ملک کی معیشت کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔


یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستانی حکومت کو بدعنوانی، ناکارہ بیوروکریسی اور سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل کی وجہ سے ٹیکس کی رقم کو مؤثر طریقے سے مختص کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے ٹیکس کی رقم خرچ کرنے میں شفافیت اور جوابدہی کو بہتر بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔

ہفتہ، 4 مارچ، 2023

پونچھ ہاؤس راولپنڈی

پونچھ ہاٶس راولپنڈی

ڈیڑھ سو سال پرانا یہ محل۔نما گھر پونچھ ہاٶس کے نام سے جانا جاتا ہے

 یہ خوبصورت محل نما گھر اپنے بنوانے والوں کے دور حکومت اور طرز حکومت کی یاد بھی تازہ کرتا ہے

یہ ہاٶس ریاست جموں کشمیر کے بانی ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے بھتیجے موتی سنگھ نے اسے1897 میں دوسرے بادشاہوں، شہزادوں کیلئے آرام گاہ، اور اپنے محل کے طور پر استعمال کے لئیے تعمیر کروایا تھا  

پنڈی کے علاقے مریڑ حسن سے زرا سا آگے دائیں جانب آدم جی روڈ پر واقع سحر انگیز پر شکوہ محل واقع ہے

اس پرشکوہ عمارت کے مرکزی ہال میں خالصتاً کشمیری انداز میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے بنی بالکنیاں موجود ہیں

1914 میں پونچھ ریاست جموں اور کشمیر کا حصہ بنا تو یہ عمارت کشمیر کے حکمران مہاراجا گلاب سنگھ کی جائیداد بن گئی۔

قیام پاکستان کے بعد 1950 کی دہائی میں یہ عمارت آزاد جموں و کشمیر کے پہلے وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور صدر و وزیر اعظم کے کیمپ آفس کے طور پر بھی استعمال ہوئی۔اس عمارت کو عمدہ کاریگری اور لگن سے بنایا گیا ہے اس کے راستوں کو روشن کرنے کیلئے لکڑی کی چھتوں میں روشن دان اور کھڑکیاں بڑی کاریگری سے بناٸی گٸیں ہیں

فن تعمیر کے ماہر کاریگروں نے کشمیری لکڑی پر پیچدہ کاری گری سے یورپی اور ہندوستانی فن تعمیر کا دل کش ملاپ کا یہ شاہکار تیار کیا

عمارت میں خواتین اور مردوں کی رہائش کیلئے 27 علیحدہ علیحدہ کمرے جن میں غسل خانے اور دلان بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مہاراجا مرکزی ہال میں عدالتیں اور بڑی تقریبات منعقد کیا کرتے تھے

عمارت کی دیواریں خوبصورت نقش نگاری اور خوبصورتی سے بنائی لکڑی کی بنی بالکنیوں سے سجی ہیں۔

مہاراجا کی رہائیش عمارت کی اوپری منزل پر ملازمین کے چھوٹے چھوٹے کمروں سے ملحق تھی۔

 کسی دور میں پونچھ ہاؤس کا صحن اور میدان 37 کنال کا ہوا کرتا تھا لیکن آج یہ سکڑ کر محض 23 کنال رہ گیا ہے۔ 1983 میں پونچھ ہاؤس کے دلان میں ایک دس منزلہ عمارت بنائی گئی جسے پونچھ ھاؤس کا نام دیا گیا دراصل یہ پرانی عمارت پونچھ ہاؤس کہلاتی تھی 

۔یہ حصہ کبھی کشمیر کے مہاراجا کا دربار ہوا کرتا




تھا۔ 

بدھ، 1 مارچ، 2023

آزاد کشمیر میں لوکل كونسلر کا دائرہ اختیار



آزاد کشمیر میں لوکل كونسلر کا دائرہ اختیار 


آزاد کشمیر میں لوکل کونسلر کا دائرہ اختیار ہر وحدہ یا تحصیل کے لیے الگ الگ ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرح، آزاد کشمیر میں بھی انتخابی عمل کی بنیاد پر، کسی خاص علاقے کی جمعیت کی تعداد، اس کے مرکزی وہاں کے نظام کی شکل، اور انتخابی اصولوں کے بارے میں فیصلے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عموماً، ہر تحصیل میں ایک یا دو لوکل کونسلز ہوتے ہیں جو وہاں کی جمعیت کے امور کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔


آزاد کشمیر کی خصوصیات کی وجہ سے، انتخابی ادارہ محدود ہوتا ہے اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ کسی اور نگرانی کے ذمہ دار نہیں ہوتے۔ بیشتر تحصیلات میں، لوکل کونسلرز کو ملکری بیکنگ جماعتوں کی امیدواروں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔


کچھ تحصیلات میں، لوکل کونسلز کی تعداد کم ہوتی ہے، جبکہ دیگر میں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ تحصیلات گردش پرمشیٹہ ہوتی ہیں یا زیادہ عوامی جماعتوں کے حوالے سے مشہور ہوتی ہیں۔ اس طرح کے لوکل کونسلر کے دائرے کا اختیار تحصیل کے قوانین و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے۔


آزاد کشمیر میں لوکل کونسلر کا دائرہ اختیار ایک شہر یا تحصیل کے خصوصیات، اس کی جمعیت، جغرافیائی پیمائش، اور مقامی نظام کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح کے کونسلر کی اختیاری حدود کو تعین کرنے کے لیے، آزاد کشمیر کے دفتر کی طرف سے تحصیل کے مقامی نظام کی تشخیص کی جاتی ہے جو عموماً نئے تحصیل کے قوانین کے تحت تعین کیا جاتا ہے۔


عموماً، لوکل کونسلر کے دائرہ اختیار کو تحصیل کے متناسب کرنے کے لیے وہاں کی جمعیت کی تعداد کو در نظر لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، لوکل کونسلر کے دائرہ اختیار کو جغرافیائی پیمائش اور آبادی کے مختلف حصوں کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ تحصیل کے مقامی نظام کے بارے میں بھی غور کیا جاتا ہے۔


آزاد کشمیر کے لوکل کونسلر کے دائرہ اختیار کے فیصلے کو تعین کرنے کے لیے، انتخابی ادارہ کی جانب سے متعدد مشوروں کے بعد عمومی اجلاسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ اجلاسوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہوتے ہیں جنہیں اپنے تجربات اور خصوصیات کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔


آزاد کشمیر کے 


لوکل کونسلر کے دائرہ اختیار کی حدود میں، عموماً عوامی مسائل پر نظر رکھی جاتی ہیں جن میں شہری ترقی، پانی کی فراہمی، صحت، تعلیم، حفاظتِ ماحول، ترافیک منصوبوں کی ترتیب، گرمی کے موسم میں توسیعی کام، اور محلی روزگار کی بہتری شامل ہوتے ہیں۔


لوکل کونسلر کا اہم کام اپنے حوالے سے مقامی حکومت کے مختلف مراکز کے ساتھ تعاون کرنا ہے تاکہ شہری بنیادیات، مثل، پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، اور تعلیم جیسے مسائل پر کارروائی کی جا سکے۔


علاوہ ازیں، لوکل کونسلر کا دائرہ اختیار بحرانی صورتحالوں میں بھی کام آتا ہے، جیسے کہ طبعی آفتوں، دھرنوں، طوفانوں، فلاحی ضائعہ، اور بے روزگاری۔


آزاد کشمیر میں لوکل کونسلر کی حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مقامی حکومتیں بنانے اور ترقی دینے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہیں۔ لوکل کونسلر اپنے دائرہ اختیار کے عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے مقامی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کی خدمت کرتے ہیں۔ 

منگل، 28 فروری، 2023

لوکل الیکشن میں آزاد کشمیر میں ڈسٹرک كونسلر کے اختیارات

aamirsohail755@gmail.com ۔ آزاد کشمیر میں ڈسٹرکٹ کونسلر انتخابات میں منتخب کیے جانے والے افراد ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ایک ڈسٹرکٹ یا شہر کی حکومت کو بہتر بنانا ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر میں ڈسٹرکٹ کونسلر کے اختیارات مندرجہ ذیل ہوتے ہیں: ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کی حکومت میں واقع علاقے کی سرکاری خدمات کی فراہمی کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ علاقے میں تعلیم، صحت، بجلی، گیس، پانی، سڑکیں اور دیگر بنیادی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لئے کام کریں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کی حکومت میں واقع علاقے کے لئے انتظامی منصوبے تیار کریں اور ان کی تنظیم کو دیکھ بھال کریں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کی حکومت میں واقع علاقے کے لئے مقررہ بجٹ کے مطابق پیشہ ورانہ فراہمی کے لئے کام کریں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ علاقے کی ترقی اور تعمیر کے لئے مقررہ منصوبوں کے تحت ترقی کاریوں کا نظارہ کریں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ علاقے میں امن و امان کے لئے اہم کام کریں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ علاقے میں نفع بخش پروجیکٹس کی پیشرفت کے لئے کام کریں جو عوام کے لئے بہتر زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کی حکومت میں واقع علاقے کے سکول، کالج، یونیورسٹیز، اسپتال اور دیگر خدماتی اداروں کی ترقی کو فروغ دیں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کی حکومت میں واقع علاقے کی تنظیم کو بہتر بنانے کے لئے کام کریں۔ ڈسٹرکٹ کونسلرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ علاقے کے لوگوں کی مشکلات کے حل کے لئے کام کریں اور علاقے میں عوام کے لئے فعالیتوں کا انتظام کریں۔ 

جمعرات، 23 فروری، 2023

چار بیاڑ بساڑی وزئٹنگ بننے کے قریب۔

چار بیاڑ وزیٹنگ پوائنٹ ڈنہ چار بیاڑ بساڑی کی منظوری کے بعد. محکمہ سیاحت (ٹورازم ) کے افیسران نے ایکسئین امجد محمود کی زیر نگرانی اج مورخہ 23 فروری 2023 بروز جمعرات ڈنہ چار بیاڑ بساڑی کی سائیٹس کا وزٹ کیا اور عوام علاقہ سے وزیٹنگ پوائنٹ کے حوالے سے معلومات حاصل کیں اور نقشہ جات تیار کیے صدر انجمن تاجران چاربیاڑ رہنما تحریک انصاف سردار فیاض اور ممبر لوکل کونسل وارڈ نمبل سردار فاروق نے عوام علاقہ کے ہمراہ محکمہ سیاحت کے افیسران کا شکریہ ادا کیا

ساجد سرفراز 

پی ار او وزیر قانون سردار فہیم اختر 




تيتری نوٹ پر بھارتی فوج سفيد جھنڈا لے کر آ گئی۔


تيتری نوٹ بھارتی فوج سفيد جھنڈا لے کر آزاد کشمیر کی حدود میں آئی ۔ سفيد جھنڈا ہمیشہ امن کیلئے لہرایا جاتا ہے۔بھارتی فوج سفيد جھنڈا لے کر آزاد کشمیر میں کیوں آئی اس کی ابھی تک کوئی تفصیل سامنے نہیں آ سکی۔جب کہ آزاد کشمیر کے شہریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ 


بدھ، 22 فروری، 2023

آزاد کشمیر لڑکی لڑکا بن گیا۔

ہٹیاں بالا۔

قدرت کا کرشمہ ریڈ فاؤنڈیشن سکول چناری میں زیر تعلیم تیسری جماعت کی طالبہ کی جنس تبدیل لڑکی سے لڑکا بن گیا والدین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اللہ کی قدرت پر بچہ بھی خوش ۔تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر کے ضلع جہلم ویلی کے علاقے چناری سے ملحقہ گاﺅں بانڈی سیداں کے رہائشی سید انتظار حسین شاہ کی نو سالہ بیٹی سیدہ لیلی بتول جو کہ ریڈفاونڈیشن سکول چناری میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھی اچانک جنس تبدیل ہوتے ہی لڑکا بن گیا قدرت کی جانب سے لڑکا بننے والے بچے نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے میں لڑکی تھی میرے لمبے لمبے بال تھے چند دن ہوئے میں لڑکا بن گیا ہوں اور اپنے بال بھی کٹوا دیے ہیں لڑکا بننے پر بہت خوش ہوں ، اب میں لڑکوں والے کپڑے پہنتا ہوں،بچے کے والد سید انتظار حسین شاہ نے صحافیوں کو بتایا کہ پہلے میری نو سالہ بیٹی کو پیٹ میں تکلیف ہوئی تو ہم نے اسے چناری سے چیک اپ کروایا جب چناری میں اس کی تکلیف کی کسی کو سمجھ نہیں آئی تو اسے ہم مظفرآباد لے گئے وہاں پر بھی کوئی بچی کی مرض کا کوئی نہ بتا سکا جس کے بعد ہم اسے پنڈی لے گئے ہیں اب میری بیٹی اللہ کی قدرت سے لڑکا بن گیا ہے ابھی تک بیٹا بننے والے بچے کا کوئی نام نہیں رکھا ہے چند دن تک اس کا نام تجویز کریں گے جب سے بیٹی ،بیٹا بنا ہے تب سے آج تک اسے سکول نہیں بھیجا اب سالانہ امتحانات میں شامل ہونے کے بعد بیٹے کو لڑکوں کے سکول میں داخل کراﺅں گا ابھی میرے بیٹے کا ایک اپریشن بھی ہونا باقی ہے جس کے بعد اس کی دیگر تعلیم جاری رکھوائیں گے انھوں نے مزید کہا کہ نادرا کے ریکارڈ اور فارم ب کے مطابق لیلی بتول کی تاریخ پیدائش پندرہ جنوری2015ءہے میڈیکل کے دیگر معاملات کلیر کروانے کے بعد اس کا نیا نام رکھ کر فارم ب میں رجسٹرڈ کروائیں گے یاد رہے کہ لڑکی سے لڑکے بننے کی خبر پورے جہلم ویلی میں آگ کی طرح پھیل گئی ہے ہر کوئی اللہ کی قدرت پر حیرت میں ہے


آزاد کشمیر لڑکی لڑکا بن گیا۔

پیر، 20 فروری، 2023

یونین کونسل بساڑی

ممبر ضلع کونسل سردار طاہر ادریس کی ہمراہ رہنما تحریک انصاف سردار جمال یوسف حاجی، طالب حسین صدر ٹرانسپورٹ پونچھ سردار عزیز خان، سردار اور شیراز خان کی اسلام آباد میں سردار فہیم ربانی وزیر قانون وانصاف وسیاحت سے علاقائی مسائل پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔طاہر ادریس نے یونین کونسل بساڑی کے مسائل تفصیل سے بیان کیا۔وزیر قانون کی طرف سے یہ اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی کہ بہت جلد یونین کونسل بساڑی میں ترقیاتی کام شروع ہوں گے۔  


بدھ، 15 فروری، 2023

مہنگائی کا طوفان

*📌حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردی۔*

*🇵🇰15 فروری 2023💯🤝🏻*


 *➖اسلام آباد (ہمارا بلوچستان نیوز)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت ریونیو بڑھانے کے لیے حکومت نے مختلف اشیا اور خدمات پر لاگو سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردی۔*


 *➖وزارت خزانہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سیلز ایکٹ 1990 کے تحت حکومت نے قابل ٹیکس اشیا پر ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردیا۔*


 *➖اس اقدام کے تحت خدمات کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر میک اپ کا سامان، گھریلو ضروریات کی چیزیں مثلاً صابن شیمپو وغیرہ مزید مہنگی ہوجائیں گی۔*


 *➖خیال رہے کہ پاکستان نے 31 جنوری سے 9 فروری تک اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ 10 روز کی تفصیلی بات چیت کی تھی لیکن وہ معاہدے تک نہیں پہنچ سکے تھے۔*


 *➖البتہ پالیسی سطح پر بات چیت کے اختتام پر دونوں فریقین نے ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات سے آئندہ ساڑھے 4 ماہ کے عرصے میں ایک کھرب 70 ارب روپے کی وصولی پر اتفاق کیا تھا۔*


 *➖سفارتی مبصرین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد شروع کردے اور آئی ایم ایف اٹل ہے کہ عمل درآمد کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔*

اتوار، 5 فروری، 2023

مسافر کوچ حادثہ


قلعاں ٹنگی گلہ سے 9 بجے راولپنڈی جانے والی 

گاڑی نمبر 1431 پنڈی کہوٹہ کے مقام پر 



حادثے کا شکار۔

قریبی ذرایع کے مطابق چار افراد شدید زخمی 

گاڑی میں سولہ 16 افراد سوار تھے ۔

حادثے کی وجہ معلوم نا ہو سکی۔

زخمیوں کو کہوٹہ ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔

کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ 

پیر، 30 جنوری، 2023

برف باری ۔

آزاد کشمیر بھر میں شدید برف باری نظام زندگی منجمند سردی کی شدت سے لوگ گھروں میں محصور۔برف باری سے مختلف علاقوں کی بجلی معطل۔ 




 

ہفتہ، 28 جنوری، 2023

عمران خان چیف جسٹس کو خط

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا چیف جسٹس آف


پاکستان کو خط! 


خان صاحب نے لکھا ہے کہ "آئین پاکستان کے محافظ کی حیثیت سے، جو ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ پولیس کی حراست میں جناب فواد چوہدری کی عزت اور وقار کو پامال نہ کیا جائے۔"

بلوچ آٹا بحران

اج مورخہ 28 جنوری 2023 بلوچ مرکز اور گردونواح کےعلاقوں کے سپلائی ڈپو میں اٹے کی غیر منصفانہ تقسیم و قلت اورعوام علاقہ کی شدید پریشانی کے پیش نظر سول سوسائٹی بلوچ کی جانب سے جو احتجاجی کال دی گی تھی اس کے ردعمل میں حکومتی اور محکمہ خوراک کے اعلی افسران پر مشتمل اعلی سطحی وفد نے سول سوسائٹی کے نمائدوں جن میں سردار کاشف شاھین ایڈوکیٹ ٹاؤن کونسلر بلوچ صوبیدار میجر عبدالرحمن صدرانجمن تاجران حاجی لطیف سردار محمد امین افتخار محمود ایڈوکیٹ اور چوہدری فضل الہی صاحب اور دیگر سے تفصیلی مولاقات کی اور یہ یقین دھانی کروائی کے ہمیں موقع دیں اور ہم اس منگل سے 25 توڑے فی ڈیلرکے حساب سے دیں گے اور فوتگی اور نیاز کی صورت میں دومن اضافی اٹا اس فیملی کو دیا جاے گا اور مورخہ 31 جنوری 2023 کو جو اٹا تقسیم ہو گا اس کی نگرانی محکمہ خوراک کے DFC اور دیگر افسران موقع جاکر کریں گے اور ڈیلرزسے مکمل ریکارڈ چیک کریں گے کے اٹا کیسے تقسیم ہوا جس کے پیش نظر کمیٹی نے افسران کو دو ہفتے کا ٹائم دیا کے عوام کو ریلف دیں ورنہ یہ عوام نہ ختم ہونے احتجاج شروع کرے گی جس سے حکومتی درودیوار ہل جائیں گے لہذا کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کے یہ احتجاج دو ہف 



جمعرات، 26 جنوری، 2023

سلطان محمود غزنوی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی انتہاء


حضرت سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایران کا بادشاہ اپنے سفیر کیساتھ ملاقات کے لۓ آیا ھوا تھا دن سارا سلطنت کے امور پر تبادلہ خیال میں گزر گیا رات کے کھانے کے بعد ایرانی بادشاہ اور سفیر کو مہمان خانے میں آرام کرنے کی غرض سے بھیج دیا گیا۔۔۔

 سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ خود بھی مہمان خانہ میں ھی ایک الگ خیمہ نما کمرے میں ٹھہرے تا کہ مہمان داری میں کوئی کمی نا رہ جاے۔۔۔

 تقریباً نصف رات کے بعد سلطان نے اپنے خیمہ کے باھر کھڑے غلام کو آواز دی :

حسن۔۔۔

 اس نے پانی کا لوٹا اور خرمچی اٹھائی اور خیمہ میں داخل ھو گیا ۔۔۔

ایرانی بادشاہ بڑی حیرت سے اپنے خیمہ کے پردہ سے یہ منظر دیکھ رھا تھا اور ساتھ ھی ساتھ سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے غلام حسن کا باھر آنے کا منتظر بھی تھا ۔۔۔

جیسے کوئی سوال اسکو بے چین کے ھوے تھا 

جیسے ھی حسن سلطان کے خیمہ سے باھر نکلا ایرانی بادشاہ نے اسے بلایا اور پوچھا جب سلطان نے تمھیں آواز دی حسن۔۔۔

 تو تمھارا حق تھا پہلے پوچھتے جی کیا حکم ھے آقا۔۔۔!

 تم بنا پوچھے ھی پانی کا لوٹا اور خرمچی لیکر سلطان کے خیمہ میں چلے گۓ ھو سکتا ھے سلطان کو کسی اور چیز کی طلب ھو ۔۔؟

حسن مسکرایا اور ایرانی بادشاہ کو جواب دیتے ھوے بولا 

حضور میرا مکمل نام محمد حسن ھے...

 اور میرا سلطان ھمیشہ با وضو رھتا ھے اور جب اسکا وضو نا ھو تب ھی مجھے حسن کہہ کر پکارتا ھے۔۔

 اور میں سمجھ جاتا ھوں اب سلطان کو وضو کی حاجت ھے جو انہوں نے اسم محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔۔

 آج تک میرے سلطان نے بغیر وضو کے مجھے محمد حسن کہہ کر نہیں پکارا ۔۔۔

اللّٰہ اکبر۔۔۔!

 یہ تھے وہ ھمارے اسلامی تاریخ کے" ھیروز "جن کے دلوں میں عشق مصطفیٰ کا ٹھاٹھیں مار


تا سمندر تھا ... 

كورا کیا ہوتا ہے۔

کورا کیا ہے؟۔

سردیوں میں رات کے درجہ حرارت میں بتدریج کمی ہوتی ہے اور ہوا میں نمی کا تناسب پڑھتا ہے۔جب درجہ حرارت 12 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے تو فضا میں نمی کا تناسب %100 تک پہنچ جاتا ہے۔ درجہ حرارت 12 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہونے پر ہوا میں موجود نمی زمین اور پودوں کے پتوں پر جمنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس نمی کو شبنم کہتے ہیں۔ جب درجہ حرارت مزید کم ہو کر 4 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے شبنم اپنی جگہ جمنا شروع ہو جاتی ہے ۔برف کی اس باریک تہہ کو کورا کہتے ہیں۔

کورے کی اقسام::

کورا دو اقسام کا ہوتا ہے-

1۔ ⚪سفید کورا White frost

2۔ ⚫کالا کورا Black Frost

جب درجہ حرارت 0 ڈگری ہوجائے عموما آپ دیکھتے ہیں کہ کھیت میں یا سڑک کے کنارے گھاس پر برف کی سفید چادر بچھی ہوتی ہے اور جو صبح سورج کی روشنی میں چمک رہی ہوتی ہے اسے وائٹ فراسٹ کہتے ہیں اور یہ سورج نکلنے کے 1 گھنٹے بعد تک ختم ہوجاتی ہے۔

بلیک فراسٹ عموما اس وقت ہوتا ہے جب درجہ حرارت منفی 2 سے بھی نیچے گرجائے اور ہوا میں نمی بہت کم ہو تو پودں کے پتوں میں موجود پانی جم جاتا ہے اور سیل وال پھٹنے سے پودا مرجھا کر کالا ہو جاتا جاتا ہے۔

اگر دن کے وقت بادل ہوں تو یہ سورج کی روشنی کو زمین تک نہیں پہنچے دیتے جس سے زمین ٹھنڈی رہتی ہے اور کورا پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر رات کے وقت بادل ہوں تو زمیں سے خارج ہونے والی حرارت بادلوں سے ٹکرا کر واپس زمیں پر آ جاتی ہے جس سے زمیں گرم رہتی ہے اور کورا پڑنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

اگر رات کو مطلع صاف اور بادل بالکل نہ ہوں تو زمین سے خارج ہونے والی حرارت اوپر چلی جاتی ہے اور کورا پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اگر شام کے وقت شمال کی سمت سے سرد ہوائیں چلیں تو غروب آفتاب تک زمیں مزید ٹھنڈی ہو جاتی ہے جس سے کوڑا پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر رات کے وقت ہوائیں چلتی رہیں تو ٹھنڈی اور گرم ہوائیں مکس ہو جاتی ہیں جس سے کورا پڑنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ۔

نقصان ۔

کورے سے پودوں کے خلیوں میں موجود پانی جم جاتا ہے جس سے سیل وال پھٹ جاتی ہے اور پودوں کی پانی اور خوراک والی نالیوں میں ترسیل کا نظام رک جاتا ہے جس سے پودوں میں خوراک بنانے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔اور پودوں کی بڑھوتری کا عمل بھی رک جاتا ہے۔

اگر یہ عمل لمبے عرصے تک جاری رہے تو پودوں کے پتے جل جاتے ہیں۔ نئے پتے اور شاخیں کورے سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

کورا پڑنے کی صورت میں جڑیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ کورا ڈائریکٹ زمین کو متاثر کرتا ہے۔

درجہ حرارت زمین کے نزدیک کم ہوتا ہے اور اگر زمین میں ہوا کی سرکولیشن اچھی نہیں ہو تو نقصان ز




یادہ ہوتا ہے 

بدھ، 25 جنوری، 2023

كوہاله بریج

کوہالہ بریج کی 1880 والی ایک نایاب تصویر۔ 


فواد چوہدری گرفتار

بریکنگ نیوز:تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری فجر سے قبل گھر سے گرفتار  


شیرین فرہاد

شیرین



فرہاد 

ایک حقیقت یا فسانہ۔؟

ضلع آواران اور بیلہ سے 3 سے 4 کلو میٹر جھاٶ کراس ایک FC چوکی آتی ہے یہاں سے آدھے گھنٹے سفر کے بعد کی سرحد اور پہاڑی لک پاس کے مقام پر واقع سڑک کے کنارے شیریں فراد مقبرہ موجود آواران اور لسبیلہ کی سرحدوں کو ملانے والی لک پاس کے قریب واقع ہے شیرین فرہاد کے داستان کے حوالے سے علاقے کے داستان گو قصہ بیان کرتے ہیں کہ شیرین لسبیلہ ریاست کے والی کی بیٹی تھی اور فرہاد ایک سنگ تراش تھا۔فرہاد شیریں کے عشق میں اتنا گرفتار تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر شیریں کو حاصل کرنے کی اپنی اناء پر قائم تھا۔ تو والی ریاست نے اسکے زمے ایک ناممکن زمہ داری سونپی کہ اگر فرحاد پہاڑی لک سے راستہ بنائے گا تو شیرین کی شادی اس کے ساتھ کرائی جائے گی۔ جس پر فرہاد نے اسی لک پاس کو توڑنے کی حامی بھر لی اور دن رات اس پر کام کرتا رہا جب کام اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا۔تو ریاست بیلہ کے والی کو پریشانی لاحق ہو گئی کہ ایک بت تراش کو اپنی بیٹی کا رشتہ کیسے دے وزراء اور امراء سے صلاح و مشورے کے بعد ایک بوڑھی عورت کو نہایت ہی اہم مشن کے لئے فرہاد کے پاس روانہ کردیا۔ بڑھیا نے وہاں پہنچ کر روتے ہوئے فرحاد کو یہ بری خبر سنا دی ۔ کہ شیرین اب اس دنیا میں نہیں رہے جس پر فرحاد نے اپنے بیلچے سے اپنا کام تمام کیا جبکہ شیرین نے وفاء کا ثبوت دیتے ہوئے اسی مقام پر اپنی جان دے دی جنکی جسدین ابدی مقام پر اکھٹے ہی دفنا دیئے گئے جو آج بھی ایک ہی قبر کی شکل میں موجود ہیں۔ مقامی داستان گوؤں کی زبانی اس داستان کو سنیں تو اس میں حقیقت کے آثار بہت کم دکھائی دیتے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ کہانی کچھ اور ہے جسے شیریں فرحاد کی شکل دے دی گئی ہے۔ دوسری جانب ایران ایک شاعر الیاس اور قلمی نام نظامی گنجوی ،آزربائیجان کے شہر گنجا سے تعلق رکھنے والے اس شاعر نے 1141ء کو جنم لیا اور 1209ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ لیلیٰ اور مجنون کی کہانی شاعرانہ انداز میں بیان کرنے والے اس شاعر نے رومانوی داستان’’ خسرو اور شیرین‘‘ کے نام سے ایک شعر لکھا جو بعد میں بہت مشہور ہو گیا اور لوگوں نے بعد میں اس افسانوی شاعری کو حقیقت کا روپ دے دیا۔جو بعد میں مختلف ناموں سے ہوتا ہوا ’’ شیریں فرحاد ہو گیا۔ آج بھی آواران سے کراچی جانے والے مسافر جب اس مقام پر آتے ہیں تو کچھ کے زبان سے اسے شیراز فرحاز تو کچھ اسے شیریں فرحان کہا جاتا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ سے وابسطہ لیکچرر اے آر داد بلوچ کہتے ہیں کہ روایت میں تو یہی آتا ہے کہ لک پاس کے قریب انکی قبریں موجود ہیں لیکن اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں جس سے یہ اخذ کیا جا سکے اس میں حقیقت ہے۔ اس قسم کی رومانوی داستانیں ہر قوموں میں موجود ہیں ان رومانوی داستانوں کو مختلف قوموں نے اپنے شاعری میں انکا ذکر کیا ہے۔ ہر جگہ کہانی ایک جیسی ہے فرق صرف جگہوں کا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ داستانیں خیالی ہیں۔ لیکن انکی تخلیق یونیورسل تھے۔ جنکو بنیاد بنا کر ہر قوم نے اسے اپنے لئے تشبیہ دی ہے۔ اسی طرح کی دو قبریں چکوال کے گاٶں نیلہ میں موجود ہیں ان کو بھی شیریں فرہاد کی قبریں بیان کیا جاتا ہے اور سالٹ رینج کو وہ مقام قرار دیا جاتا ہے جس جگہ فرحاد نے پہاڑ کھود کے رستہ نکالا اور یہاں تک کہا جاتا ہے کے اس نہر میں دودھ جاری ہو گیا۔ایک یہ داستان یا دیگر داستانیں حقیقت سے زیادہ فسانہ لگتی ہیں۔ جسکی تاریخ دان اپنی تاریخ میں ذکر نہیں کرتے کہ سسی پنوں، لیلیٰ مجنون اور شیریں فرہاد کچھ ایسی داستانیں ہیں جن میں حقیقت بہت کم جھلکتی ہے اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کے علاقے کردستان میں شیریں فرہاد کے نام سے ایک قبر واقع ہے جسے دیکھنے لوگ جاتے ہیں ۔ اگر یہ واقعی ایک حقیقت ہوتی تو تین جگہوں کے بجائے ایک ہی جگہ انکی قبریں ہوتیں۔ یا یہ ہو سکتا ہے یہ داستان حقیقت ہو۔ کیونکہ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ زمانے میں بلوچوں کے پاس وسائل نہ تھے اور نہ ہی انکے پاس ایسے واقعات کو لکھ کر محفوظ کرنے اور انہیں آنے والی نسلوں تک پہنچانے ذرائع موجود تھے۔ اب جبکہ مختلف ادارے اس ملک میں موجود ہیں ان پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔ نظامی گنجوی جس کی تاریخ پیدائش کو دیکھ لیں جنہوں نے اس پر شاعری لکھی تھی 1141ء کو پیدا ہوئے تھے۔ تو اگر یہ داستان واقعی حقیقت ہے تو یہ کافی پرانا واقعہ ہوگا۔ تو اتنا عرصہ گزرنے کے بعد یہ قبر اپنے وجود کو کیسے برقرار رکھ سکتی ہے کیونکہ اس قبر کی تزین و آرائش 8سال قبل کی گئی تھی اس سے پہلے یہ قبر کھلے آسمان تلے موجود تھا۔ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کے یہ پہلے دو قبریں تھیں یعنی فرہاد الگ شیریں کو الگ دفن کیا گیا لیکن یہ قبریں آپس میں مل گٸیں اور اب ایک قبر ہے

اب یہ داستانیں حقیقت ہیں یا افسانہ یہ معلوم نہیں لیکن یہ معلوم ہے یہ داستانیں نسل در نسل چلی آرہی ہیں قصے کہانیوں میں گیتوں میں انکا زکر رہتا ہے اور ہم اسے مانتے اور سراہتے آۓ ہیں کیونکہ ماٸتھالوجی میں عقل اور دلیل نہیں ڈھونڈی جاتی بسل مانا جاتا ہے لطف لیا جاتا ہے ماٸتھالوجی میں جو بھی اچھا ہے اسے اپنا مانا جاتا ہے حقیقت ڈھونڈنے میں وقت نہیں گنوایا جاتا ماٸتھالوجی میں وفا اہم ہے عہد وفا دیکھا جاتا ہے جنون دیکھا جاتا ہے بس ۔ اس لیے یہ داستانیں لوک داستانوں میں اپنی پختہ حقیقت رکھتی ہیں اپنے وجود کے ساتھ سامنے کھڑی ہوتی ہیں 

 

منگل، 24 جنوری، 2023

ضلع سدھنوتی کی مختصر تاریخ

آزاد کشمیر کا ضلعی سدھنوتی 1996ء میں قائم ہوا۔ اس کا رقبہ 569 مربع کلو میٹر ہے۔ جو آزاد کشمیر کے کل رقبے کا %4 ہے۔ اس ضلع کی آبادی 340,000 ن...